Jump to content
IslamicTeachings.org

Bint e Aisha

Moderators
  • Posts

    1,733
  • Joined

  • Last visited

  • Days Won

    103

Everything posted by Bint e Aisha

  1. "احتساب قادیانیت" "ختم نبوت کورس" سبق نمبر 6 "قرآن مجید کی 2 آیات پر اجرائے نبوت کے موضوع پر قادیانی شبہات اور ان کے علمی تحقیقی جوابات" "آیت نمبر 1" قادیانی قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیت سے باطل استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نبوت میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم نہیں ہوئ ہے بلکہ جاری ہے اور قیامت تک نئے نبی آسکتے ہیں۔ آیئے پہلے آیت اور اس کا ترجمہ دیکھتے ہیں اور پھر قادیانیوں کے باطل استدلال کا علمی رد کرتے ہیں۔ آیت یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ اِمَّا یَاۡتِیَنَّکُمۡ رُسُلٌ مِّنۡکُمۡ یَقُصُّوۡنَ عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتِیۡ ۙ فَمَنِ اتَّقٰی وَ اَصۡلَحَ فَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ۔ ترجمہ = اے آدم علیہ السلام کے بیٹے اور بیٹیو! اگر تمہارے پاس تم میں سے ہی کچھ پیغمبر آیئں جو تمہیں میری آیات پڑھ کر سنائیں ،تو جو لوگ تقوی اختیار کر لیں گے اور اپنی اصلاح کر لیں گے ،ان پر نہ کوئی خوف طاری ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے ۔ (سورۃ الاعراف آیت نمبر 35) قادیانیوں کا باطل استدلال قادیانی اس آیت سے باطل استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس آیت میں تمام بنی آدم کو مضارع کے صیغے کے ساتھ خطاب کیا گیاہے ۔ اس لئے اس آیت کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ قیامت تک بنی آدم میں سے رسول آتے رہیں گے ۔ قادیانیوں کے باطل استدلال کا جواب قادیانیوں کے اس باطل استدلال کے بہت سے جوابات ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں ۔ جواب نمبر 1 قرآن مجید کے اسلوب سے یہ بات ثابت ہے کہ پورے قرآن میں جہاں بھی امت محمدیہ علیہ السلام کو اللہ تعالٰی نے خطاب کیا ہے تو وہاں 2 طریقوں سے خطاب کیا ہے۔ 1۔ امت محمدیہ علیہ السلام کو اجابت کے لئے "یاایھاالذین آمنو" کے الفاظ سے خطاب کیا گیا ہے۔ 2۔ امت محمدیہ علیہ السلام کو دعوت کے لئے "یاایھاالناس" کے الفاظ سے خطاب کیا گیا ہے۔ پورے قرآن میں امت محمدیہ علیہ السلام کو "یبنی آدم " کے الفاظ سے خطاب نہیں کیا گیا ۔ پس ثابت ہوا کہ اس آیت میں امت محمدیہ علیہ السلام کو خطاب نہیں کیا گیا ۔ بلکہ امت محمدیہ سے پہلے تمام اولاد آدم کو جو خطاب کیا گیا تھا اس آیت میں اس کا ذکر ہے ۔ ایک ضروری وضاحت یبنی آدم کے الفاظ سے جہاں بھی اولاد آدم علیہ السلام کو خطاب کیا گیا ہے وہاں اگر کوئی احکام نازل کئے جانے کا ذکر ہوتو اگر وہ احکام امت محمدیہ علیہ السلام میں منسوخ نہ کئے گئے ہوں یا کوئی ایسا حکم ہو جو شریعت محمدیہ علیہ السلام کو اس حکم کے پورا کرنے سے مانع نہ ہوتو امت محمدیہ علیہ السلام بھی اس حکم میں شامل ہوتی ہے۔ جبکہ اس آیت میں جس بات کو ذکر کیا گیا ہے وہ سابقہ امتوں کے لئے اس لئے ہے کیونکہ قرآن و سنت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی قرار دیا گیا ہے۔ اور آخری نبی کے آنے کے بعد نبوت جاری نہیں رہتی۔ قادیانی " یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ" کے لفظ پر اعتراض کرتے ہوئے ایک اور آیت بھی پیش کرتے ہیں "یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ خُذُوۡا زِیۡنَتَکُمۡ عِنۡدَ کُلِّ مَسۡجِدٍ "کہ اس آیت میں "یبنی آدم"کے لفظ سے خطاب کیا گیا ہے اور اس میں مسجد کا ذکر ہے اور مسجدیں امت محمدیہ علیہ السلام کے ساتھ خاص ہیں۔ حالانکہ قادیانی علمی یتیموں کو یہ پتا نہیں کہ مسجد کا ذکر پہلی امتوں کے لئے بھی قرآن میں کیا گیا ہے۔ جیسا کہ اس آیت میں ذکر ہے ۔ "قَالَ الَّذِیۡنَ غَلَبُوۡا عَلٰۤی اَمۡرِہِمۡ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَیۡہِمۡ مَّسۡجِدًا" انہوں نے کہا کہ : ہم تو ان کے اوپر ایک مسجد ضرور بنائیں گے ۔ (سورۃ الکھف آیت نمبر 21) جواب نمبر 2 اولاد بنی آدم میں ہندو، سکھ،عیسائی اور یہودی تمام شامل ہیں۔ کیا ہندوں، سکھوں ،عیسائیوں اور یہودیوں میں سے بھی رسول آسکتا ہے؟؟؟ اگر ان میں سے رسول نہیں آسکتا تو ان کو اس آیت کے عموم سے کس دلیل کے ساتھ قادیانی خارج کرتے ہیں؟؟؟ اس کے علاوہ اولاد بنی آدم میں عورتیں اور ہیجڑے بھی شامل ہیں ۔ کیا عورتوں اور ہیجڑوں میں سے بھی رسول آسکتا ہے؟؟؟؟؟ اگر قادیانی اس کے جواب میں کہیں کہ عورتیں پہلے نبی نہیں بنی تو اب بھی نہیں بن سکتیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح کوئی عورت نبی نہیں بنی اسی طرح پہلے کسی نبی کی اطاعت کرنے سے کوئی مرد بھی نبی نہیں بنا۔ اگر نبوت جاری ہے اور اطاعت سے کوئی انسان نبی بن سکتا ہے تو اطاعت سے عورت بھی نبی بن سکتی ہے۔ پس ثابت ہوا کہ اس آیت کی رو سے جس طرح عورت نبی نہیں بن سکتی اسی طرح کوئی مرد بھی نبی نہیں بن سکتا۔ جواب نمبر 3 اگر اس آیت "یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ اِمَّا یَاۡتِیَنَّکُمۡ رُسُلٌ مِّنۡکُمۡ َ" سے رسولوں کے آنے کا وعدہ ہے تو اس آیت "اما یاتینکم منی ھدی " سے صاحب شریعت رسولوں کے آنے کا وعدہ بھی ہے۔کیونکہ اس آیت میں وہی یاتینکم ہے جو "یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ اِمَّا یَاۡتِیَنَّکُمۡ رُسُلٌ مِّنۡکُمۡ " والی آیت میں ہے۔ لیکن قادیانی صاحب شریعت رسولوں کے آنے کے منکر ہیں پس جس طرح آیت "یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ اِمَّا یَاۡتِیَنَّکُمۡ رُسُلٌ مِّنۡکُمۡ " سے آپ قادیانی صاحب شریعت رسولوں کے آنے کے منکر ہیں اسی طرح اس آیت سے غیر تشریعی رسول بھی نہیں آسکتے۔ جواب نمبر 4 اس آیت "یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ اِمَّا یَاۡتِیَنَّکُمۡ رُسُلٌ مِّنۡکُمۡ" میں لفظ "اما"ہے ۔ اور "اما " حرف شرط ہے۔ جس کا تحقق ضروری نہیں جس طرح مضارع کے لئے استمرار ضروری نہیں ۔ جیسا کہ اس آیت سے وضاحت ہوتی ہے۔ "َاِمَّا تَرَیِنَّ مِنَ الۡبَشَرِ اَحَدًا" سورہ مریم آیت 26 ترجمہ = اگر لوگوں میں سے کسی کو آتا دیکھو اس آیت کا اگر قادیانی اصول کے مطابق ترجمہ کریں تو یوں بنے گا کہ مریم علیہ السلام قیامت تک آدمی کو دیکھتی رہیں گی۔ حالانکہ یہ ترجمہ قادیانی نہیں مانتے۔ پس جس طرح اس آیت کی رو سے مریم علیہ السلام قیامت تک کسی آدمی کو نہیں دیکھ سکتیں۔ اسی طرح اس آیت "یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ اِمَّا یَاۡتِیَنَّکُمۡ رُسُلٌ مِّنۡکُمۡ " سے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قیامت تک کوئی نیا نبی نہیں آسکتا ۔ جواب نمبر 5 اس آیت کا شان نزول قادیانیوں کے تسلیم کردہ مجدد امام سیوطی رحمہ اللہ نے یوں بیان کیا ہے۔ "ابی یسار سلمی سے روایت ہے کہ اللہ رب العزت نے سیدنا آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد کو (اپنی قدرت و رحمت کی )مٹھی میں لیا اور فرمایا "یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ اِمَّا یَاۡتِیَنَّکُمۡ رُسُلٌ مِّنۡکُمۡ۔۔۔" پھر رسولوں پر نظر رحمت ڈالی تو فرمایا یایھاالرسل ۔۔۔۔۔ پس ثابت ہوا کہ قادیانیوں کے تسلیم کر دہ مجدد کے نزدیک یہ آیت عالم ارواح کے واقعہ کی حکایت ہے۔ اس لئے اس آیت سے نبوت کا جاری رہنا کسی صورت بھی ثابت نہیں ہوتا۔ جواب نمبر 6 جس رکوع میں یہ آیت ذکر ہے اس میں اس آیت سے پہلے 3 دفعہ آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد کو یبنی آدم کے الفاظ سے اللہ تعالٰی نے خطاب کیا ہے۔ اس لئے اگر سیاق و سباق کو بھی دیکھا جائے تو بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں اولین اولاد آدم علیہ السلام کے خطاب کو اللہ تعالٰی نے بیان فرمایا ہے۔ جواب نمبر 7 بالفرض محال اگر تسلیم کر بھی لیا جائے کہ اس آیت کی رو سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد انسانوں میں سے رسول آسکتے ہیں تو مرزاقادیانی پھر بھی رسول ثابت نہیں ہوتا ۔ کیونکہ مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ میں تو انسان ہی نہیں ۔ کرم خاکی ہوں پیارے نہ آدم زاد ہوں ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار (روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 127) خلاصہ کلام تمام گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت سے بلکہ قرآن مجید کی کسی آیت سے بھی نبوت کا جاری ہونا ثابت نہیں ہوتا ۔ بلکہ اس آیت میں اولین اولاد آدم علیہ السلام سے اللہ تعالٰی کے خطاب کو بیان کیا گیا ہے۔ "دوسری آیت" قادیانی قرآن مجید کی درج ذیل آیت سے باطل استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی نبوت جاری ہے اور قیامت تک نئے نبی اور رسول آسکتے ہیں۔ آیئے پہلے آیت اور اس کا ترجمہ دیکھتے ہیں ۔ پھر قادیانیوں کے باطل استدلال کا علمی رد کرتے ہیں۔ آیت "وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا" آیت کا ترجمہ = اور جو لوگ اللہ اور رسول کی اطاعت کریں گے تو وہ ان کے ساتھ ہوں گے ۔جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے ، یعنی انبیاء ، صدیقین ، شہداء اور صالحین ۔ اور وہ کتنے اچھے ساتھی ہیں ۔ (سورۃ النساء آیت نمبر 69) قادیانیوں کا باطل استدلال قادیانی اس آیت سے باطل استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے سے کوئی بھی انسان نبی ،صدیق، شہید اور صالح بن سکتا ہے۔ یعنی یہ 4 درجے ایسے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے سے مل سکتے ہیں۔ قادیانیوں کے اس آیت سے کئے گئے باطل استدلال کے بہت سے جوابات ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں ۔ جواب نمبر 1 کوئی بھی ذی شعور اور صاحب عقل آدمی اس آیت کا صرف ترجمہ پڑھ لے تو اسے خود پتہ چل جائے گا کہ اس آیت سے نبوت کے جاری ہونے کا قطعا کوئی ثبوت نہیں ملتا ۔ بلکہ یہ آیت اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والوں کو یہ خوشخبری سنا رہی ہے کہ آپ قیامت کے بعد نبیوں، صدیقوں ،شہدا اور صالحین کے ساتھ ہوں گے۔ جیسا کہ اس آیت کے آخری الفاظ سے واضح ہوتا ہے کہ وہ یعنی نبی ، صدیقین، شھدا اور صالحین بہترین ساتھی ہیں ۔ پس ثابت ہوا کہ یہ آیت قیامت کی معیت کے بارے میں ہے ۔ جواب نمبر 2 اس آیت کا شان نزول قادیانیوں کے تسلیم کردہ 10 صدی کے مجدد امام جلال الدین سیوطی رح یوں لکھتے ہیں ۔ پڑھئے اور سر دھنئے ۔ "بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ جنت کے بلند و بالا مقامات پر ہوں گے اور ہم جنت کے نچلے درجات میں ہوں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کیسے ہوگی؟؟؟ تو یہ آیت نازل ہوئی ۔ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ۔۔۔۔۔۔۔ (تفسیر جلالین صفحہ 80) یہاں رفاقت سے مراد جنت کی رفاقت ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام اگرچہ جنت کے بالاخانوں میں ہوں گے لیکن پھر بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین اور دوسرے نیک لوگ انبیاء کرام علیہم السلام کی زیارت سے فیض یاب ہوں گے۔ اس کے علاوہ مرزا قادیانی سے پہلے تقریبا تمام تفاسیر میں اس آیت کا یہی شان نزول لکھا ہے۔ لیجئے میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ تفسیر نے بھی بتا دیا کہ اس آیت میں معیت سے مراد جنت کی رفاقت ہے۔ جواب نمبر 3 اماں عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ "میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ ہر نبی کو مرض وفات میں اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ دنیا میں رہنا چاہتا ہے یا عالم آخرت میں ۔ جس مرض میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اس مرض میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے ۔ "مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ" یعنی ان نبیوں کے ساتھ جن پر تو نے انعام فرمایا اماں جان رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس سے میں سمجھ گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا اور آخرت میں سے ایک کا اختیار دیا جارہا ہے۔ (مشکوۃ شریف جلد 2 صفحہ 547) اس روایت سے بھی ثابت ہوگیا کہ معیت سے مراد جنت کی رفاقت ہے۔ جواب نمبر 4 دو روایات اور ملاحظہ فرمائیں جن میں بھی معیت کا ذکر ہے لیکن اس معیت سے مراد جنت کی رفاقت ہے۔ حدیث نمبر 1 "قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من قرء الف آیتہ فی سبیل اللہ کتب یوم القیامۃ مع النبیین والصدیقین والشھداء والصلحین " میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص ایک ہزار آیات روزانہ اللہ کی رضا کے لئےتلاوت کرے وہ قیامت کے دن نبیوں، صدیقوں، شہدا اور صالحین کے ساتھ بہترین رفاقت میں ہوگا۔ (مسند احمد جلد 1 صفحہ 363) حدیث نمبر 2 قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم التاجر الصدوق الامین مع النبیین والصدیقین والشھداء ۔ میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سچا امانت دار تاجر نبیوں، صدیقوں اور شھداء کے ساتھ ہوگا۔ (مسند احمد جلد 2 صفحہ 209) اب قادیانی یہ بتایئں کہ کیا کوئی سچا تاجر یا 1000 آیات روزانہ پڑھنے والا نبی بن سکتا ہے؟؟؟؟ یقینا قادیانی یہی کہیں گے کہ سچا تاجر اور 1000 آیات روزانہ پڑھنے والا قیامت کے دن نبیوں، صدیقوں، شھداء اور صالحین کے ساتھ ہوگا۔ جس طرح سچا تاجر اور 1000 آیات روزانہ پڑھنے والا نبی نہیں بن سکتا بلکہ قیامت کے دن نبیوں، صدیقوں، شہداء اور صالحین کے ساتھ ہوگا ۔ اسی طرح اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والا بھی نبی یا رسول نہیں بن سکتا بلکہ قیامت کے دن وہ نبیوں، صدیقوں، شہداء اور صالحین کے ساتھ ہوگا۔ جواب نمبر 5 مندرجہ بالا آیت میں قیامت کے دن معیت کا ذکر ہے ۔ جن آیات میں دنیا میں درجات ملنے کا ذکر ہے ان میں سے کسی ایک آیت میں بھی نبوت ملنے کا ذکر نہیں ہے ۔ مثلا سورۃ العنکبوت میں اللہ فرماتے ہیں ۔ "وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُدۡخِلَنَّہُمۡ فِی الصّٰلِحِیۡنَ " (وہ لوگ جو ایمان لائے اور اچھے اعمال کئے وہ نیک لوگوں میں داخل ہوں گے) (سورۃ العنکبوت آیت نمبر 9) اس کے علاوہ ایک اور جگہ پر اللہ تعالٰی فرماتے ہیں ۔ " وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖۤ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصِّدِّیۡقُوۡنَ" (جو لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے ہیں وہ اللہ کے نزدیک صدیق اور شھید ہیں) (سورۃ الحدید آیت نمبر 19) ان آیات میں جو لوگ مخاطب ہیں اور ان کو جو درجات ملنے کا ذکر ہے ان میں نبوت ملنے کا دور دور تک بھی ذکر نہیں ہے۔ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین سے زیادہ کامل ایمان والا امت میں کون ہوسکتا ہے؟؟؟ اگر صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین جیسے کامل ایمان والے لوگوں کو نبوت نہیں مل سکتی تو پھر امت میں کسی کو کیسے نبوت مل سکتی ہے جبکہ اللہ نے نبوت کا دروازہ بھی بند کردیا ہوا ہے۔ خلاصہ پس ثابت ہوا کہ قادیانیوں کا مندرجہ بالا آیت پر استدلال باطل ہے کیونکہ اس آیت میں قیامت کے بعد نیک لوگوں کو جو معیت ملے گی اس کا ذکر ہے۔ کہ نیک لوگ انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ ہوں گے ۔ https://khatmnabuwwat.blogspot.com/2017/12/Khatmenabuwatcourse.html?m=1
  2. "احتساب قادیانیت" "ختم نبوت کورس" سبق نمبر 5 "عقیدہ ختم نبوت پر قادیانی دھوکہ اور ظلی بروزی نبوت کی بحث" مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ نبوت کی 2 قسمیں ہیں۔ 1۔ نبی 2۔ رسول "نبی" نبی اس کو کہتے ہیں جو پرانے نبی کی کتاب اور شریعت پر عمل کرے۔ "رسول"رسول اس نبی کو کہتے ہیں جو نئی کتاب اور نئی شریعت لے کر آئے ۔ ختم نبوت پر ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ نبیوں اور رسولوں کی تعداد حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل ہوچکی ہے ۔ اب تاقیامت کوئی نیا نبی یا رسول نہیں آئے گا ۔ جبکہ قادیانی نبوت کی 3 اقسام مانتے ہیں۔ 1۔ تشریعی نبوت 2۔ غیر تشریعی نبوت 3۔ ظلی نبوت "تشریعی نبوت "قادیانی کہتے ہیں کہ نئی شریعت کے ساتھ جو نبوت ہے اس کو تشریعی نبوت کہتے ہیں۔ "غیر تشریعی نبوت"قادیانی کہتے ہیں کہ بغیر شریعت کے ساتھ جو نبوت ملتی ہے اس کو غیر تشریعی نبی کہتے ہیں۔ "ظلی نبوت "قادیانی کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے جو نبوت ملتی ہے اس کو ظلی نبوت کہتے ہیں۔ قادیانیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ تشریعی اور غیر تشریعی نبیوں کی تعداد تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے مکمل ہوچکی ہے جبکہ ظلی نبوت کا دروازہ تاقیامت کھلا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ظلی نبوت صرف مرزاقادیانی کو ملی ہے ۔ (کلمتہ الفصل صفحہ 112) "قادیانیوں سے ایک سوال"دعوی جب خاص ہوتو دلیل بھی خاص ہوتی ہے۔ آپ قادیانیوں نے نبوت کی تیسری قسم یعنی ظلی نبوت کو ایک مستقل نبوت قرار دیا ہے۔ ہمارا قادیانیوں سے سوال ہے کہ سب سے پہلے تو ہمیں قرآن اور حدیث سے وہ دلائل بتایئں جن سے پتہ چلے کہ شریعت والی نبوت بھی بند ہے اور بغیر شریعت کے نبوت بھی بند ہے۔ اور سب سے آخر میں ہمیں قرآن اور حدیث سے وہ دلائل بتایئں جہاں لکھا ہوکہ شریعت اور بغیر شریعت کے نبوت کا دروازہ تو بند ہے لیکن ظلی نبوت کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ قیامت تو آسکتی ہے لیکن قادیانی قیامت کی صبح تک کوئی قرآن کی آیت یا کوئی ایک حدیث بھی ایسی پیش نہیں کر سکتے جہاں یہ لکھا ہوکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے شریعت والے اور بغیر شریعت والے نبیوں کی تعداد تو مکمل ہوچکی ہے لیکن ظلی نبی تاقیامت آسکتے ہیں۔ قادیانی قیامت تک اپنے من گھڑت دعوی پر دلیل نہیں پیش کر سکتے۔ ھاتو برھانکم ان کنتم صدقین"ظلی نبوت " قادیانی کہتے ہیں کہ ظل سائے کو کہتے ہیں اور مرزاقادیانی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اتنی کامل اتباع کی کہ مرزاقادیانی نعوذ باللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ظل بن گیا۔ اور ظلی نبی بن گیا۔ لیکن یہ قادیانیوں کا دھوکہ ہے۔ قادیانی دراصل مرزاقادیانی کو نعوذباللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جیسا بلکہ نعوذباللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر درجہ دیتے ہیں۔ آیئے قارئین مرزاقادیانی کی کی ایک تحریر کا جائزہ لیتے ہیں جہاں مرزاقادیانی ظل اور اصل کی وضاحت کر رہا ہے۔ مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ "خدا ایک اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کا نبی ہے۔ اور وہ خاتم الانبیاء ہے۔ اور سب سے بڑھ کر ہے۔ اب بعد اس کے کوئی نبی نہیں ۔ مگر وہی جس پر بروزی طور سے محمدیت کی چادر پہنائی گئی۔ جیسا کہ تم آیئنہ میں اپنی شکل دیکھو تو تم دو نہیں ہوسکتے بلکہ ایک ہی ہو۔ اگرچہ بظاہر دو نظر آتے ہیں ۔ صرف ظل اور اصل کا فرق ہے" (روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 16)معزز قارئین مرزاقادیانی کا کفر یہاں ننگا ناچ رہا ہے مرزاقادیانی کا یہ کہنا کہ میں ظلی طور پر محمد ہوں اس کا مطلب ہے کہ نعوذباللہ اگر آیئنے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جائے تو وہ مرزاقادیانی نظر آئیں گے ۔ اور جو مرزاقادیانی آیئنے میں نظر آرہا ہے وہ مرزاقادیانی نہیں ہے بلکہ نعوذ باللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اگر دونوں ایک ہی ہیں تو پھر ظل اور بروز کی ڈھکوسلہ بازی کیوں کرتے ہو؟؟؟ یہ تو صرف لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں اور کچھ نہیں ۔ اب مرزاقادیانی کے ظل اور بروز کے فلسفے کو مرزاقادیانی کی ہی تحریرات سے باطل ثابت کرتے ہیں۔ 1۔مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ "نقطہ محمدیہ ایسا ہی ظل الوہیت کی وجہ سے مرتبہ الہیہ سے اس کو ایسی ہی مشابہت ہے جیسے آیئنے کے عکس کو اپنی اصل سے ہوتی ہے۔ اور امہات صفات الہیہ یعنی حیات،علم،ارادہ،قدرت، سمع ،بصر کلام مع اپنے جمیع فروع کےاتم و اکمل طور پر اس(آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ) میں انعکاس پذیر ہیں"(روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 224)2۔ مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ "حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا وجود ظلی طور پر گویا آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی وجود تھا"(روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 265) 3۔ مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ "خلیفہ دراصل رسول کا ظل ہوتا ہے"(روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 353) مرزاقادیانی کے اگر ظل اور بروز کے فلسفے کو تسلیم کرلیں تو پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی خدا تسلیم کرنا پڑے گا ۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور تمام خلفائے راشدین کو رسول تسلیم کرنا پڑے گا ۔ کیا کوئی قادیانی ایسا ایمان رکھتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خدا ہیں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور تمام خلفائے راشدین رسول ہیں؟؟اگر مرزاقادیانی کے فلسفے کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے ظل ہوکر بھی خدا نہیں ہوسکتے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر خلفاء رسول اللہ کے ظل ہوکر بھی رسول نہیں ہوسکتے تو مرزاقادیانی کیسے نبی اور رسول ہوسکتا ہے؟؟ ساری بات کا خلاصہ یہ ہے کہ ظلی اور بروزی نبوت کی اصطلاح صرف لوگوں کو دھوکا دینے کے لئے ہے۔ حقیقت کا اس سے کوئی تعلق نہیں ۔ "قادیانیوں کے نزدیک معیار نبوت "نبوت کا معیار ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔ حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ زمانہ جاہلیت میں تجارتی سفر پرروم گئے۔اور قیصر روم نے انہیں اپنے دربار میں بلاکر سوال پوچھے جن میں سے ایک سوال یہ بھی تھا کہ جنہوں نے نبوت کا دعوی کیا ہے ان کا خاندان کیسا ہے؟؟ حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا تھا کہ وہ عالی نسب خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ قیصر روم نے اس پر یوں تبصرہ کیا تھا کہ انبیاء عالی نسب قوموں سے ہی مبعوث کئے جاتے ہیں۔ (بخاری شریف حدیث نمبر 7 ) نبی کا عالی نسب خاندان سے مبعوث ہونا ایسی بات ہےجس پر کافروں کو بھی اتفاق ہے لیکن مرزاقادیانی جیسے بدترین کافر کے نزدیک چور ،زانی ، بدکار ،ذلیل و کمینے بھی نبی ہوسکتا ہے۔مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ"ایک شخص جو قوم کا چوہڑہ یعنی بھنگی ہے اور ایک گاؤں کے شریف مسلمانوں کی تیس چالیس سال سے یہ خدمت کرتا ہے کہ دو وقت ان کے گھروں کی گندی نالیوں کو صاف کرنے آتا ہے۔ اور ان کے پائخانوں کی نجاست اٹھاتا ہے۔ اور ایک دو دفعہ چوری میں بھی پکڑا گیا اور چند دفعہ زنا میں بھی گرفتار ہوکر اس کی رسوائی ہوچکی ہے۔اور چند سال جیل خانہ میں قید بھی رہ چکا ہے۔ اور چند دفعہ ایسے برے کاموں پر گاؤں کے نمبرداروں نے اس کو جوتے بھی مارے ہیں۔ اور اس کی ماں اور دادیاں اور نانیاں ایسے ہی نجس کام میں مشغول رہی ہیں اور سب مردار کھاتے اور گوہ اٹھاتے ہیں۔ اب خدا تعالٰی کی قدرت پر خیال کرکے ممکن توہے کہ وہ اپنے کاموں سے تائب ہوکر مسلمان ہوجائے اور پھر یہ بھی ممکن ہے کہ خدا تعالٰی کا ایسا فضل اس پرہو کہ وہ رسول اور نبی بھی بن جائے ۔ اور اسی گاؤں کے شریف لوگوں کی طرف دعوت کا پیغام لےکر آوے۔ اور کہے کہ جو شخص تم میں سے میری اطاعت نہیں کرے گا خدا اسے جہنم میں ڈالے گا ۔ لیکن باوجود اس امکان کے جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے کبھی خدا نے ایسا نہیں کیا "(روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 280) https://khatmnabuwwat.blogspot.com/2017/12/5.html?m=1
  3. "احتساب قادیانیت" "ختم نبوت کورس" سبق نمبر 4 "عقیدہ ختم نبوت ازروئے اجماع صحابہ رضی اللہ عنہ و اجماع امت" عقیدہ ختم نبوت جس طرح قرآن پاک کی آیات اور احادیث مبارکہ سے ثابت ہے اسی طرح عقیدہ ختم نبوت صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین اور امت محمدیہ کے اجماع سے بھی ثابت ہے۔ جس طرح کسی بھی مسئلے پر قرآن اور حدیث بطور دلیل ہیں۔ اسی طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کا اجماع یا امت کا اجماع بھی کسی مسئلے پر دلیل ہیں۔ آیئے پہلے اجماع کی حقیقت اور اہمیت دیکھتے ہیں اور پھر عقیدہ ختم نبوت پر صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کا اجماع اور امت کا اجماع دیکھتے ہیں۔ "اجماع کی حقیقت" اللہ تعالٰی نے ہمارے آقا و مولی سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو جو بےشمار انعامات دیئے ہیں ان میں سے ایک انعام "اجماع امت" بھی ہے۔ اجماع کی حقیقت یہ ہے کہ اگر کسی مسئلے کے حکم پر امت کے علماء مجتہدین اتفاق کرلیں تو اس مسئلے پر عمل کرنا بھی اسی طرح واجب ہوجاتا ہے۔ جس طرح قرآن اور احادیث پر عمل کرنا واجب ہے۔ چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نئے نبی نے نہیں آنا تھا ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسی ہستی امت میں موجود نہیں تھی جس کے حکم کو غلطی سے پاک اور اللہ تعالٰی کی طرف سے سمجھا جائے ۔ اس لئے اللہ تعالٰی نے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علماء مجتہدین کے اجتہاد کو یہ درجہ دیا کہ ساری امت کے علماء مجتہدین کسی چیز کے اچھے یا برے ہونے پر متفق ہوجایئں وہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ چیز اللہ تعالٰی کے ہاں بھی ایسی ہی ہے جیسے اس امت کے علماء مجتہدین نے سمجھا ہے۔اسی بات کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔ "عن أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ إِنَّ أُمَّتِي لَنْ تَجْتَمِعُ عَلَى ضَلَالَةٍ،‏‏‏‏ فَإِذَا رَأَيْتُمُ اخْتِلَافًا فَعَلَيْكُمْ بِالسَّوَادِ الْأَعْظَمِ ""حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا۔ میری امت گمراہی پر کبھی جمع نہ ہو گی، لہٰذا جب تم اختلاف دیکھو تو سواد اعظم ( یعنی بڑی جماعت ) کو لازم پکڑو"(ابن ماجہ حدیث نمبر 3950) اصول کی کتابوں میں اجماع امت کے حجت شرعیہ ہونے اور اس کے لوازمات اور شرائط کے بارے میں مفصل بحثیں موجود ہیں۔ جن کا خلاصہ یہ ہے کہ احکام شرعیہ کی حجتوں میں قرآن اور حدیث کے بعد تیسرے نمبر پر اجماع کو رکھا گیا ہے۔ اور جس مسئلے پر صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کا اجماع ہوجائے تو وہ اسی طرح قطعی اور یقینی ہے جس طرح کسی مسئلے پر قرآن کی آیات قطعی اور یقینی ہیں۔ چنانچہ علامہ ابن تیمیہ رح لکھتے ہیں کہ "واجماعھم حجتہ قاطعتہ یجب اتباعھا بل ھی اوکد الحجج وھی مقدمتہ علی غیرھا ولیس ھذا موضع تقریر ذلک فان ھذا الاصل مقرر فی موضعہ ولیس فیہ بین الفقھاء ولا بین سائر المسلمین الذین ھم المومنون خلاف" "اجماع صحابہ حجت قطعیہ ہے بلکہ اس کا اتباع فرض ہے۔ بلکہ وہ تمام شرعی حجتوں میں سب سے زیادہ موکد اور سب سے زیادہ مقدم ہے ۔ یہ موقع اس بحث کا نہیں ۔ کیونکہ ایسے مواقع (یعنی اصول کی کتابوں میں ) یہ بات اہل علم کے اتفاق سے ثابت ہوچکی ہے۔ اور اس میں تمام فقہاء اور تمام مسلمانوں میں جو واقعی مسلمان ہیں کسی کا اختلاف نہیں "(اقامتہ الدلیل جلد 3 صفحہ 130) "عقیدہ ختم نبوت پر صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کا اجماع"اسلامی تاریخ میں یہ بات حد تواتر کو پہنچ چکی ہے کہ مسیلمہ کذاب نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں نبوت کا دعوی کیا اور ایک بڑی جماعت نے اس کے دعوی نبوت کو تسلیم بھی کر لیا۔ ایک دفعہ مسیلمہ کذاب کا ایلچی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے مسیلمہ کذاب کے دعوی کے بارے میں پوچھا تو ایلچی نے کہا کہ میں مسیلمہ کذاب کو اسکے تمام دعووں میں سچا سمجھتا ہوں۔ تو جواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تو ایلچی نہ ہوتا تو میں تمہیں قتل کروادیتا۔ کچھ عرصے بعد ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے اس مسیلمہ کذاب کے ایلچی کو ایک مسجد میں دیکھا تو اس کو قتل کروادیا۔حدیث کے الفاظ اور ترجمہ ملاحظہ فرمائیں ۔ عَنْ أَبِيهِ نُعَيْمٍ قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَهُمَا حِينَ قَرَأَ كِتَابَ مُسَيْلِمَةَ:‏‏‏‏ مَا تَقُولَانِ أَنْتُمَا ؟ قَالَا:‏‏‏‏ نَقُولُ كَمَا قَالَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَمَا وَاللَّهِ لَوْلَا أَنَّ الرُّسُلَ لَا تُقْتَلُ لَضَرَبْتُ أَعْنَاقَكُمَا ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جس وقت آپ نے مسیلمہ کا خط پڑھا اس کے دونوں ایلچیوں سے کہتے سنا: تم دونوں مسیلمہ کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ ان دونوں نے کہا: ہم وہی کہتے ہیں جو مسیلمہ نے کہا ہے ، ( یعنی اس کی تصدیق کرتے ہیں ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر یہ نہ ہوتا کہ سفیر قتل نہ کئے جائیں تو میں تم دونوں کی گردن مار دیتا ۔ (ابوداؤد شریف حدیث نمبر 2761) مسیلمہ کذاب کے ایلچی کو عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے قتل کروایا ۔ یہ واقعہ درج ذیل روایت میں ہے۔ "حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حَارِثَةَ بْنِ مُضَرِّبٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ أَتَى عَبْدَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا بَيْنِي وَبَيْنَ أَحَدٍ مِنْ الْعَرَبِ حِنَةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنِّي مَرَرْتُ بِمَسْجِدٍ لِبَنِي حَنِيفَةَ فَإِذَا هُمْ يُؤْمِنُونَ بِمُسَيْلِمَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَرْسَلَ إِلَيْهِمْ عَبْدَ اللَّهِفَجِيءَ بِهِمْ فَاسْتَتَابَهُمْ غَيْرَ ابْنِ النَّوَّاحَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ لَهُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:‏‏‏‏ لَوْلَا أَنَّكَ رَسُولٌ لَضَرَبْتُ عُنُقَكَ فَأَنْتَ الْيَوْمَ لَسْتَ بِرَسُولٍ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرَ قَرَظَةَ بْنَ كَعْبٍ فَضَرَبَ عُنُقَهُ فِي السُّوقِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ مَنْ أَرَادَ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى ابْنِ النَّوَّاحَةِ قَتِيلًا بِالسُّوقِ ""انہوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آ کر کہا: میرے اور کسی عرب کے بیچ کوئی عداوت و دشمنی نہیں ہے، میں قبیلہ بنو حنیفہ کی ایک مسجد سے گزرا تو لوگوں کو دیکھا کہ وہ مسیلمہ پر ایمان لے آئے ہیں، یہ سن کر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کو بلا بھیجا، وہ ان کے پاس لائے گئے تو انہوں نے ابن نواحہ کے علاوہ سب سے توبہ کرنے کو کہا، اور ابن نواحہ سے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: اگر تو ایلچی نہ ہوتا تو میں تیری گردن مار دیتا آج تو ایلچی نہیں ہے ۔ پھر انہوں نے قرظہ بن کعب کو حکم دیا تو انہوں نے بازار میں اس کی گردن مار دی، اس کے بعد عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: جو شخص ابن نواحہ کو دیکھنا چاہے وہ بازار میں جا کر دیکھ لے وہ مرا پڑا ہے"(ابوداؤد شریف حدیث نمبر 2762) جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئ تو اس کے بعد بہت سے فتنوں نے سراٹھایا جن میں منکرین زکوۃ کا فتنہ بھی تھا ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین نے منکرین زکوۃ کے خلاف بھی جہاد کیا لیکن جہاد کرنے سے پہلے اس پر بحث و مباحثہ بھی ہوا کہ منکرین زکوۃ کے خلاف جہاد کیا جائے یا جہاد نہ کیا جائے ۔ جب صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین متفق ہوگئے تو پھر منکرین زکوۃ کے خلاف جہاد ہوا۔ لیکن جب مسیلمہ کذاب کے خلاف حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جہاد کا حکم دیا تو کسی ایک صحابی نے یہ نہیں کہا کہ وہ کلمہ گو ہے اس کے خلاف جہاد نہیں ہونا چاہئے ۔ بلکہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین نے مسیلمہ کذاب اور اس کے پیروکاروں کو کفار سمجھ کر کفار کی طرح ان سے جہاد کیا۔ اور مسیلمہ کذاب کو قتل کرنے کی وجہ صرف اس کا دعوی نبوت تھا کیونکہ ابن خلدون کے مطابق صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کو اس کی دوسری گھناونی حرکات کا علم اس کے مرنے کے بعد ہوا۔ اور یہی صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کا عقیدہ ختم نبوت پر اجماع ہے۔ "عقیدہ ختم نبوت پر اجماع امت "عقیدہ ختم نبوت پر اجماع امت کے چند حوالے ملاحظہ فرمائیں ۔ حوالہ نمبر 1 ملا علی قاری رح لکھتے ہیں۔ "دعوی النبوۃ بعد نبینا صلی اللہ علیہ وسلم کفرابالاجماع" ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دعوی کرنے والا امت کے اجماع سے کافر ہے۔ (شرح فقہ الاکبر صفحہ 202) حوالہ نمبر 2 امام غزالی رح نے لکھا ہے کہ "ان الامتہ فھمت بالاجماع من ھذا الفظ ومن قرائن احوالہ انہ افھم عدم نبی بعدہ ابدا۔ وانہ لیس فیہ تاویل ولا تخصیص فمنکر ھذا لایکون الا منکرالاجماع""بیشک امت نے بالاجماع اس لفظ (خاتم النبیین ) سے یہ سمجھا ہے کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہوگا اور نہ کوئی رسول ہوگا۔ اور اس پر اجماع ہے کہ اس لفظ میں کوئی تاویل و تخصیص نہیں ۔ پس اس کا منکر یقینا اجماع امت کا منکر ہے"(الاقتصاد فی الاعتقاد صفحہ 123) حوالہ نمبر 3 علامہ آلوسی رح ختم نبوت پر امت کےاجماع کے بارے میں لکھتے ہیں کہ "ویکون صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین مما نطقت بہ الکتاب وصدعت بہ السنتہ واجمعت علیہ الامتہ فیکفر مدعی خلافہ ویقتل ان اصر" "آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم النبیین ہونا ان مسائل میں سے ہے جس پر کتاب(قرآن)ناطق ہے اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اس کو بوضاحت بیان کرتی ہیں۔ اور تمام امت کا اس پر اجماع ہے۔ پس اس کے خلاف کا مدعی کافر ہے اگر وہ توبہ نہ کرے تو قتل کر دیا جائے"(روح المعانی جلد 22 صفحہ 39) حوالہ نمبر 4 قاضی عیاض رح نے خلیفہ عبدالملک بن مروان کے دور کا ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ اس کے دور میں ایک شخص نے نبوت کا دعوی کیا ۔ تو خلیفہ نے وقت کے علماء جو تابعین میں سے تھے ان کے فتوی سے اس کو قتل کروادیا ۔ قاضی صاحب اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ "وفعل ذالک غیر واحد من الخلفاء والملوک باشباھھم واجمع علماء وقتھم علی صواب فعلھم والمخالف فی ذالک من کفرھم کافر ""اور بہت سے خلفاء سلاطین نے ان جیسے مدعیان نبوت کے ساتھ یہی معاملہ کیا ہے ۔ اور اس زمانے کے علماء نے ان سے اس فعل کے درست ہونے پر اجماع کیا ہے۔ اور جو شخص ایسے مدعیان نبوت کو کافر نہ کہے وہ خود کافر ہے" (شفاء جلد 2 صفحہ 257،258) عقیدہ ختم نبوت کے بارے میں قرآن ،حدیث اور اجماع امت کی بحث کا خلاصہ درج ذیل ہے۔ 1۔ عقیدہ ختم نبوت قرآن پاک کی 99 آیات سے ثابت ہے 2۔ عقیدہ ختم نبوت 210 سے زائد احادیث سے ثابت ہے۔ 3۔ عقیدہ ختم نبوت تواتر سے ثابت ہے۔ 4۔ عقیدہ ختم نبوت صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کے اجماع اور امت کے اجماع سے بھی ثابت ہے۔ 5۔ مسئلہ ختم نبوت پر امت کا سب سے پہلا اجماع منعقد ہوا۔ 6۔ عقیدہ ختم نبوت کی وجہ سے قرآن پاک کی حفاظت کا اللہ تعالٰی نےوعدہ فرمایا۔ https://khatmnabuwwat.blogspot.com/2017/12/4.html?m=1
  4. I've started a blog on Khatm-e-nabuwat: https://khatmnabuwwat.blogspot.com/?m=1
  5. Advice given by Maulana Yunus Patel (RA) to a student of knowledge: Complete Adab is required when learning Deen, moreso with Tafseer and Hadeeth. Try to remain with Wudhu, use Miswaak, and read plenty of Durood Shareef. Have utmost respect for your Ustaadh, otherwise that knowledge will be lost. Try and make the khidmah of your Asaatidha. It is imperative to abstain from sins. Make every effort to show your love for Nabi Sallallaahu 'alayhi wasallam by following the Sunnah. Make the Niyyah of bringing the reality of each Hadeeth into your life. When writing Hadeeth, write the Arabic “Sallallaahu 'alayhi wasallam” in full. Make Dua for deep understanding of the speech of Rasulullah Sallallaahu 'alayhi wasallam, acceptance in your endeavours and for Allah Ta’ala to use you in the Khidmah of Hadeeth. The following advice offers much ‘food for thought’: "Seeking out knowledge is not saying: ‘So and so related from so-and-so’; rather, seeking out knowledge is fearing Allah, the Possessor of Might and Majesty." [Imam Sufyaan At-Thauree (Rahmatullahi ‘alayh)] “When you have written down (studied) ten Ahaadeeth, check if you notice an improvement in the way you walk, in your level of patience, and in your degree of self-dignity. For if you do not see any such improvement, then know that your knowledge harms you and does not benefit you.” [Advice given to Imam Sufyaan At-Thauree (Rahmatullahi ‘alayh) by his respected mother] fragrance-of-a-rose
  6. ترك العمل من أجل الناس رياء والعمل من أجل الناس شرك والإخلاص أن يعافيك الله عنهما Leaving out an action for people is ostentation, doing a deed [to show] people, is shirk. Sincerity is that Allah protect you from these two qualities. Fudayl ibn ‘Iyad (rahimahullah) Taken from here
  7. THE MANNERS OF VISITING KEEPING APPOINTMENTS, DELAYS AND CANCELLATION In the first verse of Surat Al-Mai'da, Allah called upon the believers 'O' you the Believers, fulfill your promises.' In Surat Maryam Allah also praised Prophet Ismail may peace be upon him 'He was true to his promise. He was a Messenger and a Prophet.' To keep an appointment is vital to our lives, since time is the most precious commodity, once wasted it could not be replaced. If you made an appointment, whether to a friend, colleague or for business you should do your utmost to keep this appointment.This is the right of the other person who gave you part of their time and may have declined other appointments. Not only have you disrupted their schedule but you have marred your image and personality. If your punctuality becomes lousy you will lose people's respect. You should keep all your appointments whether it was with an important person, a close friend or someone else. You will be responding to the call of Allah in Surat Al-Issra' 'and keep your promises. The promise is a responsibility.' It is enough to know that our kind Prophet gave an appointment to one of his companions. The companion came three days later. The Prophet gently reprimanded him 'You have caused me some trouble. I have been waiting expecting you since three days.' The companion probably had an excuse for this delay. Then, he had no means to inform the Prophet about his inability to meet the appointment. Today, fast and reliable communication means are available everywhere. As soon as you realize you will not be able to keep an appointment, you should inform the other parties to enable them to utilize their time. Do not be careless or irresponsible. Do not think that the appointment is so unimportant that it does not merit a notice or an apology. This is totally irrelevant. Regardless of its importance an appointment is a commitment. It must be kept or canceled properly in advance. Never make a promise while you do not intend to keep it or fulfill it. This is forbidden as it falls within lying and hypocrisy. Al-Bukhari and Muslim narrated that the Prophet said: 'Three traits single out hypocrites, even if he prayed and/or fast and claimed to be Muslim: If he talks, he lies. If he promises, he does not keep it. If he is entrusted, he betrays the trust.' Imam Ghazali in Al-Ihya said that this Hadith fits those who promise while intending not to fulfill it, or those who, without excuse, decide later not to fulfill a promise. Those who promise but could not fulfill, their promise due to a proper excuse are not hypocrites. But we should be careful not to create excuses that are not valid. Allah knows our inner thoughts and intentions. Taken from the book 'Islamic Manners' by Shaykh Abdul Fattah Abu Ghuddah
  8. THE MANNERS OF CONVERSATION THE ART OF LISTENING If a person started telling you or your group something that you know very well, you should pretend as if you do not know it. Do not rush to reveal your knowledge or to interfere with the speech. Instead, show your attention and concentration. The honourable follower Imam 'Ata ibn Abi Rabah said: 'A young man would tell me something that I may have heard before he was born.Nevertheless, I listen to him as if I have never heard it before.' Khalid bin Safwan Al-Tamimi, who was with the two caliphs Omar bin Abdul Aziz; and Hisham bin Abdul Malik, said: 'If a person tells you something you have heard before, or news that you already learned, do not interrupt him or her to exhibit your knowledge to those present. This is a rude and an ill manner.' The honourable Imam 'Abdullah bin Wahab Al-Qurashi Al-Masri, a companion of Imam Malik, Al-Laith bin Sa'd and Al-Thawri, said: 'Sometimes a person would tell me a story that I have heard before his parents had wed. Yet I listen as if I have never heard it before.' Ibrahim bin Al-Junaid said: 'A wise man said to his son: 'learn the art of listening as you learn the art of speaking. Listening well means maintaining eye contact, allowing the speaker to finish the speech, and restraining yourself from interrupting his speech.' Al-Hafiz Al-Khatib Al-Baghdadi said in a poem: "A talk never interrupt Though you know it in and out" Taken from the book 'Islamic Manners' by Shaykh Abdul Fattah Abu Ghuddah
  9. How to Learn Good Manners Three approaches to learning exceptional adab 1) Read books on ādāb. "Essentially, adab is putting into practice what you know." Recommended reading: Min Adabil Islām (Islamic Manners) by Shaykh Abdul Fattāh Abū Ghuddah RH https://muftimuhammadibnadamislamicmanners.files.wordpress.com/2008/11/islamic_manners_shaykh_abdul_fattah_abu_ghuddah.pdf Ādāb al-Suhbah by Imām Sha'rāni RH http://www.zamzamacademy.com/view/series/lecture-series/adab-al-suhba-series-video/ Ādābul Mu'āsharat (Etiquettes of Social Life) by Hakīm ul Ummah Hadrat Mawlānā Ashraf Ali Thanwī RH https://dl.dropboxusercontent.com/u/100668996/EtiquettesOfSocialLifeByShaykhAshrafAliThanwi.pdf 2) Read the stories of the Sahābah RA What this does is tell you how the sahābah took the teachings of Rasūlullāh ﷺ and put them into practice. 3) Sitting in the company of those who possess adab. Humans benefit from the company of others without even realizing. Changing your scene and finding the company of people who have good adab will help to learn new things. Always look at other people and anything beneficial you see try to implement it. Taken from Q&A: How to Learn Good Manners by Mufti Abdur-Rahman ibn Yusuf Zamzam Academy
  10. Question Is there any narration that states cucumber and dates helps to gain weight? Answer Yes. Imam Abu Dawud and Imam Ibn Majah (rahimahumallah) have recorded the following narration: Sayyidatuna ‘Aaishah (radiyallahu ‘anha) says, “My mother wanted me to gain some weight before going [to the home] of Rasulullah (sallallahu ‘alayhi wa sallam). Nothing [benefited me] until she fed me cucumber and fresh dates which [helped me] gain weight nicely.” (Sunan Abi Dawud, Hadith: 3898, Sunan Ibn Majah, Hadith: 3324) Imam Hakim (rahimahullah) has declared the Hadith authentic and Hafiz Dhahabi concurs. (Mustadrak Hakim, vol. 2 pg. 185) And Allah Ta’ala Knows best. Answered by: Moulana Suhail Motala Approved by: Moulana Muhammad Abasoomar hadithanswers
  11. "احتساب قادیانیت" "ختم نبوت کورس" سبق نمبر 3 "عقیدہ ختم نبوت ازروئے احادیث اور عقیدہ ختم نبوت پر قادیانی عقیدے کا جائزہ" ویسے تو عقیدہ ختم نبوت تقریبا 210 سے زائد احادیث مبارکہ سے ثابت ہے لیکن اس سبق میں ہم عقیدہ ختم نبوت پر 10 احادیث مبارکہ پیش کریں گے ۔ حدیث نمبر1 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَثَلِي وَمَثَلُ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِي كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى بُنْيَانًا فَأَحْسَنَهُ وَأَجْمَلَهُ، إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِيَةٍ مِنْ زَوَايَاهُ، فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوفُونَ بِهِ وَيَعْجَبُونَ لَهُ وَيَقُولُونَ: هَلَّا وُضِعَتْ هَذِهِ اللَّبِنَةُ قَالَ فَأَنَا اللَّبِنَةُ، وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص نے بہت ہی حسین و جمیل محل بنایا مگر اس کے کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔ لوگ اس کے گرد گھومنے اور عش عش کرنے لگے ۔ اور یہ کہنے لگے کہ یہ ایک اینٹ بھی کیوں نہ لگادی گئ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں وہی اینٹ ہوں اور نبیوں کو ختم کرنے والا ہوں۔ (مسلم شریف حدیث نمبر 5961) حدیث نمبر 2 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فُضِّلْتُ عَلَى الْأَنْبِيَاءِ بِسِتٍّ: أُعْطِيتُ جَوَامِعَ الْكَلِمِ، وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ، وَأُحِلَّتْ لِيَ الْغَنَائِمُ، وَجُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ طَهُورًا وَمَسْجِدًا، وَأُرْسِلْتُ إِلَى الْخَلْقِ كَافَّةً، وَخُتِمَ بِيَ النَّبِيُّونَ ۔ میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے 6 چیزوں پر انبیاء کرام علیہم السلام پر فضیلت دی گئی ۔ 1۔ مجھے جامع کلمات عطا کئے گئے ۔ 2۔ رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی۔ 3۔ مال غنیمت میرے لئےحلال کردیا گیا۔ 4۔ روئے زمین کو میرے لئے مسجد اور پاک کرنے والی چیز بنادیاگیا ۔ 5۔ مجھے تمام مخلوق کی طرف مبعوث کیا گیا ۔ 6۔ مجھ پر تمام نبیوں کا سلسلہ ختم کر دیا گیا ۔ ( مسلم شریف حدیث نمبر 1167) حدیث نمبر 3 قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَلِيٍّ: «أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى، إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي» میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا تم مجھ سے وہی نسبت رکھتے ہو جو ہارون علیہ السلام کو موسی علیہ السلام سے تھی مگر میرے بعد کوئ نبی نہیں ۔ ایک اور روایت کے مطابق میرے بعد نبوت نہیں ۔ (مسلم شریف حدیث نمبر6217 ) حدیث نمبر 4 ‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ""كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ تَسُوسُهُمُ الْأَنْبِيَاءُ كُلَّمَا هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَسَيَكُونُ خُلَفَاءُ فَيَكْثُرُونَ، میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بنی اسرائیل کی قیادت خود ان کے انبیاء کرتے تھے جب کسی نبی کی وفات ہوجاتی تھا تو دوسرا نبی اس کی جگہ آجاتا تھا۔ لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں البتہ خلفاء ہوں گے اور بہت ہونگے۔ (بخاری شریف حدیث نمبر 3455 ) حدیث نمبر 5 ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّهُ سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي ثَلَاثُونَ كَذَّابُونَ كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي۔ میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت میں 30 جھوٹے پیدا ہوں گے ان میں سے ہر ایک کہے گا کہ میں نبی ہوں ۔ حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں ۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔ (ترمذی شریف حدیث نمبر 2219) حدیث نمبر 6 قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدِ انْقَطَعَتْ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا رَسُولَ بَعْدِي وَلَا نَبِيَّ ۔ میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رسالت و نبوت ختم ہوچکی ہے پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہے نہ نبی۔ (ترمذی شریف حدیث نمبر 2272) حدیث نمبر 7 قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ ""نَحْنُ الْآخِرُونَ السَّابِقُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِنَا وَأُوتِينَاهُ مِنْ بَعْدِهِمْ۔ میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم سب کے بعد آئے اور قیامت کے دن سب سے آگے ہونگے۔ صرف اتنا ہوا کہ ان کو کتاب ہم سے پہلے دی گئی ۔ (بخاری شریف حدیث نمبر 896) حدیث نمبر 8 قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَوْ كَانَ بَعْدِي نَبِيٌّ لَكَانَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ۔ میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہوتے ۔ (ترمذی شریف حدیث نمبر 3686) حدیث نمبر 9 "عن جبیر بن مطعم قال سمعت النبی صلی اللہ علیہ وسلم یقول ان لی اسماء، وانا محمد، وانا احمد،وانا الماحی الذی یمحواللہ بی الکفر، وانا الحاشر الذی یحشرالناس علی قدمی، وانا العاقب الذی لیس بعدہ نبی" میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے چند نام ہیں ۔ میں محمد ہوں ۔ میں احمد ہوں ۔ میں ماحی یعنی مٹانے والا ہوں کہ میرے ذریعے اللہ کفر کو مٹائیں گے۔ اور میں حاشر یعنی جمع کرنے والا ہوں۔ کہ لوگ میرے قدموں پر اٹھائے جایئں۔ اور میں عاقب ہوں یعنی سب کے بعد آنے والا ہوں۔ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔ (مشکوٰۃ صفحہ 515) حدیث نمبر 10 قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ ""بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةَ هَكَذَا" میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کی طرف اشارہ کر کے فرمایا مجھے اور قیامت کو ان دو انگلیوں کی طرح بھیجا گیا ہے۔ (یعنی جس طرح شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی کے درمیان کوئی اور انگلی نہیں اسی طرح میرے اور قیامت کے درمیان کوئی اور نبی نہیں) (بخاری شریف حدیث نمبر 6503 ) ان دس احادیث مبارکہ سے بھی یہ بات اظہر من الشمس ہوگئ کہ نبیوں کی تعداد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے پوری ہوگئ ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبیوں کی تعداد میں کسی ایک نبی کا اضافہ بھی نہیں ہوگا۔ "عقیدہ ختم نبوت اور قادیانی دھوکہ" عقیدہ ختم نبوت پر ہمارا یعنی مسلمانوں کا اور قادیانیوں کا اصل اختلاف یہ ہے کہ ہمارا عقیدہ تو یہ ہے کہ نبیوں کی تعداد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے مکمل ہوئی ۔ جبکہ قادیانی کہتے ہیں کہ نبیوں کی تعداد نعوذ باللہ مرزاقادیانی کے آنے سے مکمل ہوئی ۔ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت کی عمارت کی آخری اینٹ مانتے ہیں جبکہ قادیانی نعوذباللہ مرزاقادیانی کو نبوت کی عمارت کی آخری اینٹ مانتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں بن سکتا جبکہ قادیانی کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ مرزاقادیانی کے بعد کوئی نبی نہیں بن سکتا۔ ذیل میں چند حوالے پیش خدمت ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ قادیانی مرزاقادیانی کو نبوت کی عمارت کی آخری اینٹ اور آخری نبی سمجھتے ہیں۔ حوالہ نمبر 1 مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ "مسیح موعود کے کئی نام ہیں منجملہ ان میں سے ایک نام خاتم الخلفاء ہے یعنی ایسا خلیفہ جو سب سے آخر میں آنے والا ہے" (روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 333) حوالہ نمبر 2 مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ "پس خدا نے ارادہ فرمایا کہ اس پیشگوئی کو پورا کرے اور آخری اینٹ کے ساتھ بناء کو کمال تک پہنچا دے ۔ پس میں وہی اینٹ ہوں" (روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 178) حوالہ نمبر 3 مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ "وہ بروز محمدی جو قدیم سے موعود تھا وہ میں ہوں۔ اس لئے بروزی نبوت مجھے عطاکی گئی۔اور اس نبوت کے مقابل پر تمام دنیا اب بےدست و پا ہے۔ کیونکہ نبوت پر مہر ہے۔ ایک بروز محمدی جمیع کمالات محمدیہ کے ساتھ آخری زمانے کے لئے مقدر تھا سو وہ ظاہر ہوگیا۔ اب بجز اس کھڑکی کے کوئی اور کھڑکی نبوت کے چشمہ سے پانی لینے کے لئے باقی نہیں رہی" (روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 215) حوالہ نمبر 4 مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ "جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء، قطب ،ابدال وغیرہ اس امت میں سے گزر چکے ہیں ۔ ان کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا ۔ پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لئے صرف میں ہی محسوس کیا گیا ہوں۔اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں" (روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 406) حوالہ نمبر 5 مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ "ہلاک ہوگئے وہ جنہوں نے ایک برگزیدہ رسول کو قبول نہیں کیا ۔ مبارک وہ جس نے مجھے پہچانا۔ میں خدا کی راہوں میں سب سے آخری راہ ہوں۔ اور میں اس کے سب نوروں میں سے آخری نور ہوں۔ بدقسمت ہے وہ جو مجھے چھوڑتا ہے ۔ کیونکہ میرے بغیر سب تاریکی ہے" (روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 61)
  12. "احتساب قادیانیت" "ختم نبوت کورس" سبق نمبر 2 "آیت خاتم النبیین کی علمی تحقیقی تفسیر" قرآن مجید میں اللہ تعالٰی فرماتے ہیں۔ مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمۡ وَ لٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا ۔ ( محمدﷺ تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ، لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں ، اور تمام نبیوں میں سب سے آخری نبی ہیں ، اور اللہ ہر بات کو خوب جاننے والا ہے ) (سورۃ الاحزاب آیت نمبر 40) "آیت کا شان نزول " عرب معاشرے میں یہ قبیح رسم موجود تھی کہ وہ لےپالک بیٹے کو حقیقی بیٹا سمجھتے تھے اور اس لےپالک کو تمام احوال و احکام میں بھی حقیقی بیٹا ہی سمجھتے تھے اور مرنے کے بعد وراثت،حلت و حرمت ،رشتہ ناطہ وغیرہ تمام احکام میں بھی حقیقی بیٹا ہی تصور کرتے تھے ۔ جس طرح نسبی بیٹے کے مرجانے یا طلاق دینے کے بعد باپ کے لئے حقیقی بیٹے کی بیوی سے نکاح حرام ہے اسی طرح وہ لےپالک بیٹے کی طلاق یافتہ یا بیوہ بیوی سے نکاح کو حرام سمجھتے تھے ۔ اس آیت میں اللہ تعالٰی نے ان کی قبیح رسم کا خاتمہ فرمایا ۔ حضرت زید ؓ بن حارث حضورﷺ کے غلام تھے ۔ حضورﷺ نے انہیں آزاد کرکے اپنا بیٹا بنالیا۔ اور صحابہ کرام ؓ نے بھی ان کو زید ؓ بن حارث کی بجائے زید ؓ بن محمد کہنا شروع کردیا تھا ۔ حضرت زید ؓ بن حارث کی اپنی بیوی حضرت زینب ؓ سے ناچاتی ہوگئی اور انہوں نے حضرت زینب ؓ کو طلاق دے دی ۔ تو اللہ تعالٰی نے حضورﷺ کو حکم فرمایا کہ آپ حضرت زینب ؓ سے نکاح فرمالیں۔ تاکہ اس قبیح رسم کا مکمل طور پر خاتمہ ہوجائے۔ جب حضور ﷺ نے حضرت زینب ؓ سے نکاح فرمالیا تو مشرکین نے اعتراض شروع کر دیا کہ آپ نے اپنے بیٹے کی بیوی سے نکاح کرلیا ہے۔ چنانچہ جواب میں اللہ تعالٰی نے یہ آیات نازل فرمایئں۔ اس ایک فقرے میں ان تمام اعتراضات کی جڑ کاٹ دی گئی ہے جو مخالفین نبیﷺ کے اس نکاح پر کر رہے تھے ۔ ان کا اولین اعتراض یہ تھا کہ آپﷺ نے اپنی بہو سے نکاح کیا ہے حالانکہ آپﷺ کی اپنی شریعت میں بھی بیٹے کی منکوحہ باپ پر حرام ہے ۔ اس کے جواب میں فرمایا گیا کہ محمّد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ، یعنی جس شخص کی مطلقہ سے نکاح کیا گیا ہے وہ بیٹا تھا کب کہ اس کی مطلقہ سے نکاح حرام ہوتا ؟ تم لوگ تو خود جانتے ہو کہ محمدﷺ کا سرے سے کوئی بیٹا ہے ہی نہیں ۔ ان کا دوسرا اعتراض یہ تھا کہ اچھا ، اگر منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹا نہیں ہے تب بھی اس کی چھوڑی ہوئی عورت سے نکاح کر لینا زیادہ سے زیادہ بس جائز ہی ہو سکتا تھا ، آخر اس کا کرنا کیا ضرور تھا ۔ اس کے جواب میں فرمایا گیا مگر وہ اللہ کے رسولﷺ ہیں ، یعنی رسول ہونے کی حیثیت سے ان پر یہ فرض عائد ہوتا تھا کہ جس حلال چیز کو تمہاری رسموں نے خواہ مخواہ حرام کر رکھا ہے اس کے بارے میں تمام تعصبات کا خاتمہ کر دیں اور اس کی حلت کے معاملے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہ رہنے دیں ۔ پھر مزید تاکید کے لیے فرمایا اور وہ خاتم النبیین ہیں ، یعنی ان کے بعد کوئی رسول تو درکنار کوئی نبی تک آنے والا نہیں ہے کہ اگر قانون اور معاشرے کی کوئی اصلاح ان کے زمانے میں نافذ ہونے سے رہ جائے تو بعد کا آنے والا نبی یہ کسر پوری کر دے ، لہٰذا یہ اور بھی ضروری ہو گیا تھا کہ اس رسم جاہلیت کا خاتمہ وہ خود ہی کر کے جائیں ۔ اس کے بعد مزید زور دیتے ہوئے فرمایا گیا کہ اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے یعنی اللہ کو معلوم ہے کہ اس وقت محمد ﷺ کے ہاتھوں اس رسم جاہلیت کو ختم کرا دینا کیوں ضروری تھا اور ایسا نہ کرنے میں کیا قباحت تھی ۔ وہ جانتا ہے کہ اب اس کی طرف سے کوئی نبی آنے والا نہیں ہے لہٰذا اگر اپنے آخری نبی کے ذریعہ سے اس نے اس رسم کا خاتمہ اب نہ کرایا تو پھر کوئی دوسری ہستی دنیا میں ایسی نہ ہو گی جس کے توڑنے سے یہ تمام دنیا کے مسلمانوں میں ہمیشہ کے لیے ٹوٹ جائے ۔ بعد کے مصلحین اگر اسے توڑیں گے بھی تو ان میں سے کسی کا فعل بھی اپنے پیچھے ایسا دائمی اور عالمگیر اقتدار نہ رکھے گا کہ ہر ملک اور ہر زمانے میں لوگ اس کا اتباع کرنے لگیں ، اور ان میں سے کسی کی شخصیت بھی اپنے اندر اس تقدس کی حامل نہ ہو گی کہ کسی فعل کا محض اس کی سنت ہونا ہی لوگوں کے دلوں سے کراہیت کے ہر تصور کا قلع قمع کر دے ۔ "آیت خاتم النبیین کی تفسیر القرآن بالقرآن" قرآن پاک میں 7 جگہ پر ختم کے مادے سے الفاظ آئے ہیں ۔ 1۔ خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ وَ عَلٰی سَمۡعِہِمۡ ؕ وَ عَلٰۤی اَبۡصَارِہِمۡ غِشَاوَۃٌ ۫ وَّ لَہُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ ۔ اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر لگادی ہے ۔ اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے اور ان کے لئے زبردست عذاب ہے ۔ (سورۃ البقرۃ آیت نمبر 7) 2۔ قُلۡ اَرَءَیۡتُمۡ اِنۡ اَخَذَ اللّٰہُ سَمۡعَکُمۡ وَ اَبۡصَارَکُمۡ وَ خَتَمَ عَلٰی قُلُوۡبِکُمۡ مَّنۡ اِلٰہٌ غَیۡرُ اللّٰہِ یَاۡتِیۡکُمۡ بِہٖ ؕ اُنۡظُرۡ کَیۡفَ نُصَرِّفُ الۡاٰیٰتِ ثُمَّ ہُمۡ یَصۡدِفُوۡنَ ۔ ( اے پیغمبر ! ان سے ) کہو : ذرا مجھے بتاؤ کہ اگر اللہ تمہاری سننے کی طاقت اور تمہاری آنکھیں تم سے چھین لے اور تمہارے دلوں پر مہر لگا دے ، تو اللہ کے سوا کونسا معبود ہے جو یہ چیزیں تمہیں لاکر دیدے؟ دیکھو ہم کیسے کیسے مختلف طریقوں سے دلائل بیان کرتے ہیں ، پھر بھی یہ لوگ منہ پھیر لیتے ہیں ۔ (سورۃ الاعراف آیت نمبر 46) 3۔ اَفَرَءَیۡتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہُ وَ اَضَلَّہُ اللّٰہُ عَلٰی عِلۡمٍ وَّ خَتَمَ عَلٰی سَمۡعِہٖ وَ قَلۡبِہٖ وَ جَعَلَ عَلٰی بَصَرِہٖ غِشٰوَۃً ؕ فَمَنۡ یَّہۡدِیۡہِ مِنۡۢ بَعۡدِ اللّٰہِ ؕ اَفَلَا تَذَکَّرُوۡنَ ۔ پھر کیا تم نے اسے بھی دیکھا جس نے اپنا خدا اپنی نفسانی خواہش کو بنا لیا ہے ، اور علم کے باوجود اللہ نے اسے گمراہی میں ڈال دیا ، اور اس کے کان اور دل پر مہر لگا دی ، اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا ۔ اب اللہ کے بعد کون ہے جو اسے راستے پر لائے؟ کیا پھر بھی تم لوگ سبق نہیں لیتے؟ (سورۃ الجاثیہ آیت نمبر 23) 4۔ اَلۡیَوۡمَ نَخۡتِمُ عَلٰۤی اَفۡوَاہِہِمۡ وَ تُکَلِّمُنَاۤ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ تَشۡہَدُ اَرۡجُلُہُمۡ بِمَا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ ۔ آج کے دن ہم ان کے منہ پر مہر لگادیں گے ، اور ان کے ہاتھ ہم سے بات کریں گے ، اور ان کے پاؤں گواہی دیں گے کہ وہ کیا کمائی کیا کرتے تھے ۔ (سورۃ یس آیت نمبر 65) 5۔ اَمۡ یَقُوۡلُوۡنَ افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا ۚ فَاِنۡ یَّشَاِ اللّٰہُ یَخۡتِمۡ عَلٰی قَلۡبِکَ ؕ وَ یَمۡحُ اللّٰہُ الۡبَاطِلَ وَ یُحِقُّ الۡحَقَّ بِکَلِمٰتِہٖ ؕ اِنَّہٗ عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ ۔ بھلا کیا یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ اس شخص نے یہ کلام خود گھڑ کر جھوٹ موٹ اللہ کے ذمے لگا دیا ہے ؟ حالانکہ اگر اللہ چاہے تو تمہارے دل پر مہر لگا دے ، اور اللہ تو باطل کو مٹاتا ہے ، اور حق کو اپنے کلمات کے ذریعے ثابت کرتا ہے ، یقینا وہ سینوں میں چھپی ہوئی باتوں تک کو جانتا ہے ۔ (سورۃ الشوری آیت نمبر 24) 6۔ یُسۡقَوۡنَ مِنۡ رَّحِیۡقٍ مَّخۡتُوۡمٍ ۔ انہیں ایسی خالص شراب پلائی جائے گی جس پر مہر لگی ہوگی ۔ (سورۃ المطففین آیت نمبر 25) 7۔ خِتٰمُہٗ مِسۡکٌ ؕ وَ فِیۡ ذٰلِکَ فَلۡیَتَنَافَسِ الۡمُتَنَافِسُوۡنَ ۔ اس کی مہر بھی مشک ہی مشک ہوگی ۔ اور یہی وہ چیز ہے جس پر للچانے والوں کو بڑھ چڑھ کر للچانا چاہیے ۔ (سورۃ المطففین آیت نمبر 26) ان سات جگہ پر معنی میں قدر مشترک یہ ہے کہ اس کا معنی یہ کیا جاتا ہے کہ کسی چیز کو اس طرح بند کرنا کہ اندر والی چیز باہر نہ جاسکے اور باہر والی اندر نہ جاسکے۔ مثلا "ختم اللہ علی قلوبھم" اس کا مطلب یہ ہے کہ کفار کے دلوں پر اللہ نے مہر لگادی ہے۔ اب ایمان ان کے دل میں داخل نہیں ہوسکتا اور کفر ان کے دل سے باہر نہیں جاسکتا۔ اسی طرح ہماری زیر بحث آیت میں بھی "خاتم النبیین" کا مطلب یہ ہے کہ دائرہ نبوت میں جتنے نبی آنے تھے وہ آچکے ۔ اب دائرہ نبوت میں نیا نبی نہیں آسکتا۔ اسی طرح دائرہ نبوت سے کوئی نبی باہر نہیں جاسکتا ۔ تفسیر القرآن بالقرآن کا خلاصہ یہ ہے کہ حضورﷺ کے تشریف لانے سے نبیوں کی تعداد پوری ہوچکی ہے۔ اب تاقیامت نیا نبی نہیں آسکتا ۔ "تفسیر "خاتم النبیین " بالحدیث" "وَإِنَّهُ سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي كَذَّابُونَ ثَلَاثُونَ كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي " "حضورﷺ نے فرمایا "میرے بعد میری امت میں 30 جھوٹے پیدا ہوں گے ان میں سے ہرایک کہے گا کہ میں نبی ہوں۔ لیکن میں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں " (ترمذی شریف حدیث نمبر 2219) اس کے علاوہ ایک اور روایت میں فرمایا ۔ "عن أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدِ انْقَطَعَتْ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا رَسُولَ بَعْدِي وَلَا نَبِيَّ " حضورﷺ نے فرمایا "بیشک رسالت اور نبوت ( مجھ پر) منقطع ہوچکی ہے۔ اب میرے بعد نہ کوئی نبی ہے اور نہ کوئی رسول ہے" (ترمذی شریف حدیث نمبر 2272) ان روایات سے پتہ چلا کہ حضور ﷺنے خود ہی خاتم النبیین کی تشریح فرمادی کہ میرے اوپر رسالت اور نبوت منقطع ہوچکی ہے اور میرے بعد نہ کوئی نیا نبی آئے گا اور نہ کوئی نیا رسول آئے گا ۔ یعنی نبیوں کی تعداد حضور ﷺ کے تشریف لانے سے مکمل ہوچکی ہے۔ "خاتم النبیین کی صحابہ کرام ؓ سے تفسیر " تفسیر در منثور میں امام ابن جریر نے حضرت ابوسعید خدری ؓ کی ایک روایت نقل کی ہے جس میں حضرت ابوسعید خدری ؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا "مثلی و مثل النبیین کمثل رجل بنی دارا فأتمھا إلا لبنة واحدة ، فجئت انا فأتممت تلک اللبنة." "حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میری اور انبیاء کی مثال ایسے ہے۔ جیسے ایک آدمی گھر بنائے اسے مکمل کردے۔ مگر ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دے۔ میں آیا تو اس اینٹ کو مکمل کردیا۔" (درمنثور (عربی)جلد 12 صفحہ 63 تفسیر در آیت نمبر 40 سورة الأحزاب طبع مصر 2003ء) (درمنثور (اردو)جلد 5 صفحہ 577 تفسیر در آیت نمبر 40 سورة الأحزاب طبع ضیاء القرآن پبلیکیشنز 2006ء) تفسیر در منثور میں امام ابن جریر نے حضرت جابر ؓ کی ایک روایت نقل کی ہے جس میں حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا "قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَثَلِي وَمَثَلُ الْأَنْبِيَاءِ كَمثل رَجُلٍ بَنَى دَارًا فَأَكْمَلَهَا وَأَحْسَنَهَا إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ، فکان من دخلھا فنظر الیھا قال : ما احسنھا إلا موضع اللبنة فأنا موضع اللبنة، ختم بی الانبیاء" "حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میری اور انبیاء کی مثال ایسے آدمی جیسی ہے۔جو گھر بنائے جیسے ایک آدمی گھر بنائے اسے مکمل کردے۔ اور اسے اچھا بنائے۔ مگر ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دے۔ جو بھی اس گھر میں داخل ہو اسے دیکھے تو کہے کہ کتنا اچھا ہے مگر ایک اینٹ کی جگہ، میں اس اینٹ کی جگہ ہوں۔ مجھ پر انبیاء کو ختم کیا گیا۔" (درمنثور (عربی)جلد 12 صفحہ 63 تفسیر در آیت نمبر 40 سورة الأحزاب طبع مصر 2003ء) (درمنثور (اردو)جلد 5 صفحہ 577 تفسیر در آیت نمبر 40 سورة الأحزاب طبع ضیاء القرآن پبلیکیشنز 2006ء) صحابہ کرام ؓ کی خاتم النبیین کی تفسیر سے بھی پتہ چلا کہ نبیوں کی تعداد حضورﷺ کے تشریف لانے سے مکمل ہوچکی ہے۔ اب تاقیامت کوئی نیا نبی یا رسول نہیں آئے گا ۔ "خاتم النبیین اور اصحاب لغت" آیئے اب لغت سے خاتم النبیین کا معنی متعین کرتے ہیں۔ امام راغب اصفہانی کی لغات القرآن کی کتاب مفردات القرآن کی تعریف امام سیوطی رح نے کی ہے۔ اور امام سیوطی رح قادیانیوں کے نزدیک مجدد بھی ہیں۔ لہذا یہ کتاب قادیانیوں کے نزدیک بھی معتبر ہے۔ امام راغب لکھتے ہیں۔ "وخاتم النبیین لانہ ختم النبوۃ ای تممھا بمجیئہ" "آنحضرتﷺ کو خاتم النبیین اس لئے کہا جاتا ہے کہ آپ ﷺ نے نبوت کو ختم کردیا۔ یعنی آپﷺ نے تشریف لاکر نبوت کو تمام فرمادیا" (مفردات راغب صفحہ 142) لسان العرب عربی لغت کی مشہور و معروف کتاب ہے۔یہ کتاب عرب و عجم میں مستند سمجھی جاتی ہے۔اس میں خاتم النبیین کے بارے میں یوں لکھا گیا ہے۔ "خاتمھم و خاتمھم آخرھم عن اللحیانی و محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء علیہ وعلیھم الصلوۃ والسلام " "خاتم القوم زیر کے ساتھ اور خاتم القوم زبر کے ساتھ ، اس کے معنی آخرالقوم ہیں ۔ اور انہیں معانی پر لحیانی سے نقل کیا جاتا ہے۔ محمدﷺ خاتم الانبیاء ہیں یعنی آخری نبی ہیں" یہ تو صرف لغت کی 2 کتابوں کا حوالہ دیا گیا ہے جبکہ لغت کی تقریبا تمام کتابوں میں خاتم النبیین کا یہی مفہوم بیان کیا گیا ہے۔ لیجئے لغت سے بھی خاتم النبیین کا یہی مطلب ثابت ہوا کہ حضورﷺ کے تشریف لانے سے نبیوں کی تعداد مکمل ہوگئ ہے اب تاقیامت کوئی نیا نبی یا رسول نہیں آئے گا ۔ "خاتم النبيين پر قادیانی اعتراضات اور ان کے علمی تحقیقی جوابات" قادیانی اعتراض نمبر 1 " کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ لفظ " خاتم " کی اضافت " جمع " کی طرف ہو اور وہاں اس کا معنی " آخری " آیا ہو ، یہ چیلنج سو سال سے دیا جارہا ہے لیکن کوئی اس کو توڑ نہیں سکا " قادیانی اعتراض کا جواب مرزاصاحب نے لکھا ہے کہ "خاتم الخلفاء یعنی ایسا خلیفہ جو سب سے آخر میں آنے والا ہے۔ " ( خزائن جلد 23 صفحہ 333 ) یہاں " خاتم " کی اضافت " جمع " کی طرف ہے اور مرزا صاحب نے اسکا ترجمہ کیا ہے " آخری خلیفہ " واضح رہے یہ کتاب مرزا صاحب کی زندگی کی آخری کتابوں میں سے ہے۔ قادیانی اعتراض نمبر 2 " ہم نے مرزا جی کی تحریروں سے نہیں پوچھا ، ہم نے لغت کی کتابوں اور عرب محاوارات سے پوچھا ہے اس لئے ہمارے سامنے مرزا جی کی تحریریں نہ پیش کریں۔" قادیانی اعتراض کا جواب آپ کی تسلی کے لئے لغت سے بھی ثابت کر دیتے ہیں ، غور سے پڑھیے گا۔ 1۔" تاج العروس" میں ہے کہ : " والخاتم آخر القوم کالخاتم ومنه قوله تعالیٰ خاتم النبیین أی آخرھم " خاتم کا مطلب ہوتا ہے قوم کا آخری آدمی (یعنی جب خاتم القوم بولا جائے ) اور اسی سے اللہ کا یہ فرمان ہے کہ وخاتم النبیین جسکا مطلب ہے آخری نبی۔ ( تاج العروس جلد 32 صفحہ 45 ) 2۔"لسان العرب" میں ہے کہ " وختام القوم وخاتَمھم وخاتِمھم آخرھم " جب ختام القوم یا خاتَم القوم یا خاتِم القوم بولا جائے تو اسکا معنی ہوتا ہے قوم کا آخری آدمی پھر آگے لکھا ہے " ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین أی آخرھم " خاتم النبیین کا مطلب ہے آخری نبی۔ ( لسان العرب جلد 12 صفحہ 162 ) 3۔"کلیات ابی البقاء" میں ہے کہ "وتسمیة نبینا خاتم الانبیاء لآن الخاتم آخر القوم " ہمارے نبی کریمﷺ کا نام خاتم الانبیاء رکھا گیا ، کیونکہ خاتم کسی بھی قوم کے آخری فرد کو کہتے ہیں۔ ( کلیات ابی البقاء صفحہ 431 ) قادیانی اعتراض نمبر 3 "ہم نے پوچھا تھا کوئی ایسا حوالہ دکھاؤ جہاں " خاتم " کی اضافت " جمع " کی طرف ہو ، تم نے " خاتم القوم " دکھایا ، یہ " قوم " تو واحد ہے جمع نہیں ، اسکی جمع تو " اقوام " آتی ہے." قادیانی اعتراض کا جواب " قوم " واحد نہیں بلکہ " اسم جمع " ہے ، قوم ایک آدمی کو نہیں کہتے بلکہ بہت سے افراد کے مجموعے کو قوم کہتے ہیں ، اس لئے قران کریم اور جہاں بھی " قوم " کا لفظ آیا ہے وہاں اسکے بعد اسکے لئے جمع کی ضمیریں اور جمع کے صیغے ہی لائیں گئے ہیں ، تاج العروس میں جہاں " خاتم القوم " لکھا ہے اسکے بعد لکھا ہے " آخرھم " یعنی انکا آخری ، یہاں " ھم " کی ضمیر " قوم " کی طرف لوٹائی گئی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ " قوم " جمع ہے ، آئیے اب قران کریم سے کچھ مثالیں دیکھتے ہیں۔ آیت نمبر 1 حضرت نوح علیہ اسلام کے بارے میں آیا ہے کہ " لقد ارسلنا نوحاََ الی قومه فقال یا قوم اعبدوا اللہ مالکم من اله غیرہ انی اخاف علیکم عذاب یوم عظیم۔" ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا پس آپ نے ان سے کہا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اسکے علاوہ تمہارا کوئی معبود نہیں میں تم پر بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ ( سورۂ الاعراف 59 ) اس جگہ نوح علیہ اسلام فرماتے ہیں " یاقوم " اے قوم اور آگے انھیں جمع کے صیغے سے خطاب کرتے ہیں ، " اعبدوا " ، " مالکم " اور " علیکم " کے ساتھ ، ثابت ہوا قوم جمع ہے۔ آیت نمبر 2 ایک جگہ ارشاد ہے " وما ارسلنا من رسول الابلسان قومه لیبین لھم " نہیں بیجھا ہم نے کوئی رسول مگر وہی زبان بولنے والا جو اسکی قوم کی ہو تاکہ وہ ان کے لئے ( اللہ کی بات ) کھول کر بیان کر سکے ( سورۂ ابراھیم 4 ) یہاں قوم کا ذکر کر کے " لیبین لھم " میں " ھم " کی ضمیر جمع لائی گئی جو اس بات کی دلیل ہے کہ قوم جمع ہے۔ آیت نمبر 3 ایک اور جگہ نوح علیہ اسلام کا ذکر ہے ۔ " لقد ارسلنا نوحاََ الی قومه فلبث فیھم الف سنة الا خمسین عاما " پس ہم نے بیجھا نوح علیہ اسلام کو انکی قوم کی طرف پس وہ رہے ان میں پچاس کم ہزار سال ۔ ( سورۂ العنکبوت 14 ) یہاں بھی " قوم " کا ذکر کرکے فرمایا " فیھم " اور یہ " ھم " کی ضمیر جمع کی ہے جو قوم کی طرف لوٹائی گئی۔ قران کریم ایسی مثالوں سے بھرا پڑا ہے ، قوم کا لفظ جہاں بھی آیا ہے اسکی طرف لوٹائی جانے والی ضمیر اور صیغے جمع ہی آئے ہیں اس لئے اسمیں کوئی شک نہیں کہ یہ اسم جمع ہے جو ایسے گروہ کے لئے بولا جاتا ہے جس کے بہت سے افراد ہوں ، اور " اقوام " اسکی جمع الجمع ہے۔ قادیانی اعتراض نمبر 4 " عرب محاورے میں جہاں بھی " خاتم" کی اضافت " جمع " کی طرف آئی ہے وہاں اسکا معنی آخری ہو ہی نہیں سکتا بہت سے لوگوں کو خاتم المحدثین ، خاتم الفقہاء یا خاتم المفسرین کا خطاب دیا گیا ہے ، کیا انکے بعد محدثین ، فقہاء ، مفسرین آنا بند ہو گئے تھے ؟ قادیانی اعتراض کا جواب " اگر کسی انسان نے کسی انسان کے بارے میں یہ لفظ بولا ہے تو چونکہ انسان عالم الغیب نہیں ہے اس لئے یہی دلیل ہے کہ وہ صرف اپنے زمانے کے بارے میں بات کر رہا ہے ورنہ اسے معلوم ہی نہیں کہ بعد میں اس سے بڑا محدث ، فقیہ ، یا مفسر بھی پیدا ہو سکتا ہے۔ نیز یہاں تو سب سے زیادہ " افضل " والا معنی بھی نہیں ہو سکتا اور نہ اسکا یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ اب اس محدث یا فقیہ یا مفسر کی مہر سے ظلی بروزی مفسر یا محدث بنے گے ، اب مرزائی متعرض ہی بتائے کہ جہاں کسی انسان نے کسی دوسرے انسان کے بارے میں " خاتم المحدثین یا خاتم المفسرین " لکھا ہے تو اس کے وہ کیا معنی کرتے ہیں ؟ سب آخری مفسر ، سب سے افضل مفسر ، یا ایسا مفسر جس کی مہر سے محدث یا مفسر بنے گے ؟؟؟ آپ اپنے معنی بیان کرو تاکہ بات اس پر آگے چلے ، ہمارے نزدیک تو صرف یہ تمام مبالغہ کے لئے ہے اور کچھ نہیں ، اور کوئی انسان یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ آج کے بعد کوئی مفسر یا کوئی محدث ایسا پیدا ہو ہی نہیں سکتا جو اسکے زمانے کے محدثین یا مفسرین سے بڑا ہو ، لیکن اللہ عالم الغیوب ہے جب کسی کے بارے میں فرمائے " خاتم النبیین " تو وہاں خاتم کا معنی حقیقی لینے میں کوئی خرابی نہیں کیوں کا اللہ کو علم ہے اب قیامت تک کوئی نبی نہیں پیدا ہونے والا۔ قادیانی اعتراض نمبر 5 جب قادیانیوں کو کہا جاتا ہے کہ مرزاصاحب نے خاتم الاولاد کا مطلب آخری اولاد لیا ہے تو ان کی من گھرٹ دلیل یہ ہوتی ہے کہ وہ لفظ خاتِم ہےخاتَم نہیں ہے ۔ (یاد رہے کہ مرزا صاحب نے جہاں بھی خاتم لکھا وہاں اس کی کوئی وضاحت نہیں کی) قادیانی اعتراض کا جواب خاتَم اور خاتِم کا معنی: پہلی بات تو یہ ہے کہ خاتَم اور خاتِم کا یہ من گھرٹ فرق جو مرزائی کرتے ہیں کیا لغت عرب میں اس کا وجود ہے ؟؟؟ دو تین کتابوں کے حوالے پیش خدمت ہیں ورنہ پچاسوں کتابیں ہیں جو اس معنی کی تائید میں پیش کی جا سکتی ہیں۔ 1۔ صاحبِ لسانُ العرب علام ابن منظور جو ساتویں صدی میں کے بہترین عالم گزرے ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب میں یہ تشریح کی ہے " والخَتُمُ ، الخَاتِم ، الخَاتَمُ ، والخَيْتَامُ كُلَّها بعنى واحدٍ و معناها أخيرها" اور ان تمام کا معنی ایک ہی ہے اور وہ کیا کسی چیز کا اخیر۔ختم کرنے والا۔۔ کہتے ہیں " خِتامُ الودای ،خاتَم الوادى ،خاتِم الوادى، أخير الوادى " -- وادی کا اخری کنارہ ۔جہاں وادی ختم ہو جاتی ہے ان الفاظ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور مزید لکھتے ہیں کہ " خِتَامُ القوم خاتِمُهُمْ و القوم وخَاتَمُهُم أخرهم ( لسانُ العرب جلد 12 صفحہ 164) 2۔ ختمام القوم خاتِم القوم خاتَم القوم سب کا ایک معنی اخر القوم ۔۔۔۔ " والخاتَم والخاتِم:من أسماه النبىﷺ معناہ: آخر الانبیاء :وقال اللہ تعالی ☆ خاتَم النبین☆ " (تہذیب اللغہ جلد 7 صفحہ 316) (لسانُ العرب جلد12 صفحہ 164) (تا كے زیر سے) خاتِم اور (تا کے زبر سے) خاتَم دونوں کا معنی آخر الانبیاء ہے اور اللہ تعالی نے فرمایا خاتَم النبین ۔ معلوم ہوا خاتَم هو یا خاتِم دونوں کا معنی ایک ہی ہے ۔کسی چیز کا کنارہ ،کسی چیز کی انتہا ، جہاں پر کوئی چیز ختم ہو جاتی ہے اس کو خاتَم بھی کہتے ہیں خاتِم بھی کہتے ہیں ،ختام، اور ختم بھی کہتے ہیں یہ تمام کے تمام الفاظ ہم معنی ہیں مترادف ہیں ۔۔۔ یہ معنی آج کے علماء نے نہیں لکھا کہ مرزا صاحب کے تعصب میں مولویوں نے کتابوں میں لکھ دیا ہو بلکہ یہ معنی ان علماء کرام نے لکھا جو مرزا صاحب کے آنے سے ہزاروں برس پہلے گزر چکے ہیں اور جن کی کتابیں لغت عرب میں سند کی حثییت رکھتی ہیں ۔جن کی زبان میں قران نازل ہوا ان علماء کرام کی تحقیق ہے کہ خاتَم ہو یا خاتِم معنی ایک ہی ہے آخر الشئ اور پھر اس کی مثال دیتے ہوئے لکھتے ہیں جس طرح اللہ تعالی فرماتا "خاتم النبین" "آخرالنبین" سب نبیوں کے آخر میں آنے والا ۔۔۔ اس تحقیق کے بعد یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ خاتَم کے معنی آخری ہی ہیں اس کے بعد یہ محض دھوکہ فریب اور دجل و تلبیس ہے اگر یہ کہا جائے کہ خاتَم کے معنی اور خاتِم کے معنی اور ہیں ہمارے نزدیک علماء حق اور ائمہ لغت کی تحقیق کے مطابق لفظ خاتَم ہو یا خاتِم اللہ کے محبوبﷺ کے بعد اب اور کوئی نبی نہیں ہو سکتا ۔ "خاتم النبیین کا ترجمہ اور قادیانی جماعت " معزز قارئین ہم نے آیت خاتم النبیین پر علمی ،تحقیقی گفتگو سے ثابت کیا کہ خاتم النبیین کا مطلب یہ ہے کہ حضورﷺ کے تشریف لانے سے نبیوں کی تعداد مکمل ہوچکی ہے اب تاقیامت کوئی نیا نبی یا رسول نہیں آئے گا ۔ اب ہم قادیانی جماعت کے اس آیت کے ترجمے اور مفہوم کا جائزہ لیتے ہیں اور آپ کو بتاتے ہیں کہ قادیانیوں کا ترجمہ کیوں غلط ہے۔ مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ " خاتم النبیین کا مطلب ہے کہ حضورﷺ کی کامل اتباع سے نبی بنیں گے " (روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 100) قادیانیوں کے خاتم النبیین کے کئے گئے ترجمے کے غلط ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں ۔ وجہ نمبر 1 مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ "مجھے نبوت تو ماں کے پیٹ میں ہی ملی تھی " (روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 70) ایک طرف تو قادیانی کہتے ہیں کہ نبوت حضورﷺ کی اتباع سے ملتی ہے جبکہ یہاں تو مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ مجھے نبوت ماں کے پیٹ میں ہی ملی تھی۔ اب قارئین خود فیصلہ کریں کہ مرزا قادیانی کی کون سی بات درست ہے۔ وجہ نمبر 2 مرزاقادیانی نے خود خاتم النبیین کا ایک جگہ ترجمہ لکھا ہے کہ "ختم کرنے والا ہے سب نبیوں کا" (روحانی خزائن جلد 3 صصفحہ 431) اگر یہ ترجمہ غلط ہے تو مرزاقادیانی نے یہ ترجمہ کیوں لکھا؟؟ وجہ نمبر 3 مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ "میرے پیدا ہونے کے بعد میرے والدین کے گھر میں کوئی اور لڑکا یا لڑکی نہیں ہوئی ۔ گویا میں اپنے والدین کے لئے خاتم الاولاد تھا" (روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 479) اگر خاتم النبیین کا مطلب یہ ہے کہ حضورﷺ کی مہر سے نبی بنتے ہیں تو خاتم الاولاد کا بھی یہی مطلب ہونا چاہیے کہ مرزاقادیانی کی مہر سے مرزاقادیانی کے والدین کے گھر میں اولاد پیدا ہوگی۔ کیا قادیانی یہ معنی خاتم الاولاد کا کریں گے؟ یقینا یہ ترجمہ نہیں کریں گے تو پتہ چلا کہ قادیانیوں کا کیا گیا ترجمہ سرے سے ہی باطل ہے۔ وجہ نمبر 4 ایک طرف قادیانی کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کی مہر سے ایک سے زائد نبی بنیں گے۔ جبکہ دوسری طرف مرزاقادیانی اور قادیانی جماعت کا موقف ہے کہ صرف مرزاقادیانی کو ہی حضورﷺ کی کامل اتباع سے نبوت ملی ہے۔ (روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 406 ) مرزاقادیانی کے بعد خلافت ہے نبوت نہیں۔ تو اس طرح حضورﷺ خاتم النبی ہوئے، خاتم النبیین نہ ہوئے۔ اس لئے خود یہ ترجمہ قادیانیوں کے لحاظ سے بھی باطل ہے۔ وجہ نمبر 5 اگر خاتم النبیین کا یہ مطلب لیا جائے کہ حضورﷺ کی اتباع سے نبوت ملےگی تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضور ﷺ حضرت آدم علیہ السلام سے لےکر حضرت عیسی علیہ السلام تک انبیاء کے خاتم نہیں بلکہ اپنے سے بعد آنے والے نبیوں کے خاتم ہیں۔ اور یہ بات قرآن و حدیث کی منشاء کے خلاف ہے۔ وجہ نمبر 6 یہ معنی محاورات عرب کے بھی بالکل خلاف ہے کیونکہ پھر خاتم القوم اور خاتم المھاجرین کے بھی یہی معنی کرنے پڑیں گے کہ اس کی مہر سے قوم بنتی ہے اور اس کی مہر سے مھاجر بنتے ہیں۔ اور یہ ترجمہ خود قادیانیوں کے نزدیک بھی باطل ہے۔ قادیانیوں کو چیلنج اگر کوئی قادیانی قرآن پاک کی کسی ایک آیت سے یا کسی ایک حدیث سے یا کسی صحابی یا تابعی کے قول سے خاتم النبیین کا یہ معنی دکھا دے کہ حضورﷺ کی مہر سے یعنی کامل اتباع سے نبی بنتے ہیں تو اس قادیانی کو منہ مانگا انعام دیا جائے گا ۔ لیکن نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں
  13. WAZIFA PRESCRIBED TO FATIMA (RA) AFTER WITR SALAH Status: Fabricated “No believing male or female prostrates twice after Witr, recites ‘subbuhun quddusun Rabbul malaikah war ruh’ five times in each sajdah and recites Ayatul Kursi between the two sajdahs, except that Allah will forgive all his sins and if he passes away on that night, he dies as a martyr. Allah will also grant him the reward of one hundred Hajj and one hundred ‘Umrah. Allah will send one thousand Angels to record good deeds on his behalf, he will attain the reward of freeing one hundred slaves and Allah will accept his supplication” ******* Imam Ibrahim ibn Muhammad Al Halabi (rahimahullah) has declared this narration a fabrication due to the feebleness of the words and the exaggerations mentioned therein. This Hadith should therefore not be quoted. (Ghunyatul Mutamalli -Halabi Kabir-, pg. 273) Note: Reciting ‘Subhanal Malikil Quddus’after the Witr Salah has been proven in other authentic narrations, without the promise of huge rewards. Sayyiduna Ubayy ibn Ka’b (radiyallahu ‘anhu) reports that Rasulullah (sallallahu ‘alayhi wa sallam) would recite ‘Subhanal Malikil Quddus’. Some versions of this Hadith state that he would recite it thrice. (Sunan Abi Dawud, Hadith: 1425 and Sahih Ibn Hibban; Al Ihsan, Hadith: 2450) And Allah Ta’ala Knows best. Answered by: Moulana Suhail Motala Approved by: Moulana Muhammad Abasoomar Checked by: Moulana Haroon Abasoomar hadithanswers ******* By Ibrāhim ibn Muhammad al-Halabī Translated by Muntasir Zaman [Translator’s Preface: The following is an analysis of a hadith concerning the supposed virtue of performing two sajdahs after the Witr prayer followed by the recitation of “subbūh quddūs rabb al-malā’ikah wa al-rūh” and Ayāt al-Kursī. This narration has been cited in Yūsuf ibn ‘Umar al-Kādūrī’s (d. c.700 AH) commentary of Mukhtasar al-Qudūrīentitled Jāmi‘ al-Mudmarāt wa al-Mushkilāt more simply known as“al-Mudmarāt.” It was then quoted by ‘Ālim ibn ‘Alā’ al-Andarpatī (d. 786 AH) in al-Fatāwā al-Tātarkhāniyyah. This excerpt was extracted from Ibrāhīm ibn Muhammad al-Halabī’s (d. 956 AH) work Ghunyat al-Mutamallī, a commentary on Sadīd al-Dīn al-Kāshgharī’s (d. 705 AH) primer Munyat al-Musallī wa Ghunyat al-Mubtadī. In addition to being a great Hanafī jurist, Ibrāhīm al-Halabī was an expert in the sciences of Hadīth as well. Among his works in ‘Ulūm al-Hadīth, is a commentary on Alfiyyat al-Hadīth of Zayn al-Dīn al-‘Irāqī (d. 806 AH).] ******* Ibrāhīm al-Halabī writes: As for what is mentioned in al-Tātarkhāniyyah quoting al-Mudmarāt that the Prophet (peace and blessings be upon him) told Fātimah (Allah be pleased with her): No believing man or believing woman performs two sajdahs [after the Witr prayer]: he recites the following in his [first] sajdah five times: سبوح قدوس رب الملائكة والروح He then lifts his head and recites Ayāt al-Kursī once, and then [performs a second sajdah and] he recites five times: سبوح قدوس رب الملائكة والروح By the being in Whose Hands lies the soul of Muhammad, he will not stand from his place except that Allah will forgive him; grant him the reward of one hundred Hajj and one hundred ‘Umrah; Allah will give him the reward of the martyrs; He will send one thousand angels to write good deeds for him; it will be as if he freed one hundred slaves; Allah will accept his prayer; He will accept his intercession for sixty people doomed to the fire; and he will die as a martyr. This is a fabricated and false hadīth which has no basis. It is impermissible to act upon it and to narrate it except to explain its falsehood, as is the case with fabricated narrations. What indicates that it is a fabrication is the poor wording and the exaggeration that is not in conformity with sharī‘ah and reason, for reward is proportionate to the effort by the dictates of sharī‘ah and reason. The most virtuous of actions are the most strenuous. Indeed, some heretics employ the likes of this hadīth to corrupt the dīn and to deviate people, lure them into transgression, and divert them from exerting themselves in worship. Thus, some of those who lack expertise in the sciences of Hadīth and its routes and lack the ability to distinguish between authentic and false reports are deceived thereby. Rabī‘ ibn Khuthaym states, “Verily, there are hadīths that have a light as bright as day, by which we know (its authenticity), and there are others that possess a darkness, by which we know (its falsity). Ibn al-Jawzī said, “Undoubtedly, the skin of the student of knowledge shivers at the mention of a detestable hadīth, and his heart is generally driven away from it.” “And he to whom Allah has not granted light- for him there is no light.” [10] And Allah, may He be glorified, knows best, and He grants protection and success. Ahadithnotes
  14. "احتساب قادیانیت" "ختم نبوت کورس" سبق نمبر 1 "عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت" عقیدہ ختم نبوت کیا ہے؟ عقیدہ ختم نبوت کا مطلب یہ ہے کہ نبیوں کی تعداد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے پوری ہوچکی ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت اور رسالت ختم ہوچکی ہے۔ اب تاقیامت کوئی نیا نبی یا رسول نہیں آئے گا ۔ "قرآن مجید کا اسلوب " قرآن مجید نے جہاں اللہ تعالٰی کی وحدانیت، فرشتوں پر ایمان ،قیامت پر ایمان کو جزو ایمان قرار دیا ہے۔ وہاں سابقہ انبیاء کرام علیہم السلام کی نبوت و رسالت پر ایمان بھی ایمان کا جزو قرار دیا ہے۔ لیکن پورے قرآن میں ایک جگہ بھی یہ نہیں فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی کسی نئے نبی کی وحی یا نبوت پر ایمان لانا ضروری ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ نبوت و رسالت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کے بعد منقطع ہوچکی ہے۔ اب تاقیامت کوئی نیا نبی یا رسول نہیں آئے گا ۔ کیونکہ اگر کسی نئے نبی یا رسول نے آنا ہوتا تو قرآن جیسی جامع کتاب میں اس کا ذکر ضرور موجود ہوتا۔ اب ہم چند آیات آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں جن میں سابقہ انبیاء کرام علیہم السلام اور ان پر ہونے والی وحی پر ایمان لانے کا ذکر ہے۔ لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نئے نبی پر ہونے والی وحی پر یا نئے نبی کی نبوت پر ایمان لانے کا کوئی ذکر اشارتہ، کنایتہ بھی نہیں ہے۔ آیت نمبر 1 وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِکَ ۚ وَ بِالۡاٰخِرَۃِ ہُمۡ یُوۡقِنُوۡنَ ؕ۔ (سورۃ البقرۃ آیت نمبر 2) (اور جو اس ( وحی ) پر بھی ایمان لاتے ہیں جو آپ پر اتاری گئی اور اس پر بھی جو آپ سے پہلے اتاری گئی ۔اور آخرت پر وہ مکمل یقین رکھتے ہیں ) آیت نمبر 2 لٰکِنِ الرّٰسِخُوۡنَ فِی الۡعِلۡمِ مِنۡہُمۡ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِکَ وَ الۡمُقِیۡمِیۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ الۡمُؤۡتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ اُولٰٓئِکَ سَنُؤۡتِیۡہِمۡ اَجۡرًا عَظِیۡمًا ۔ (سورۃ النساء آیت نمبر 162) (البتہ ان ( بنی اسرائیل ) میں سے جو لوگ علم میں پکے ہیں اور مومن ہیں وہ اس ( کلام ) پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو ( اے پیغمبر ) تم پر نازل کیا گیا اور اس پر بھی جو تم سے پہلے نازل کیا گیا تھا اور قابل تعریف ہیں وہ لوگ جو نماز قائم کرنے والے ہیں ، زکوٰۃ دینے والے ہیں اور اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ہم اجر عظیم عطا کریں گے ) آیت نمبر 3 وَ لَقَدۡ اُوۡحِیَ اِلَیۡکَ وَ اِلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکَ ۚ لَئِنۡ اَشۡرَکۡتَ لَیَحۡبَطَنَّ عَمَلُکَ وَ لَتَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ۔ (سورۃ الزمر آیت نمبر 65) (اور یہ حقیقت ہے کہ تم سے اور تم سے پہلے تمام پیغمبروں سے وحی کے ذریعے یہ بات کہہ دی گئی تھی کہ اگر تم نے شرک کا ارتکاب کیا تو تمہارا کیا کرایا سب غارت ہوجائے گا ۔ اور تم یقینی طور پر سخت نقصان اٹھانے والوں میں شامل ہوجاؤ گے) آیت نمبر 4 قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ ہَلۡ تَنۡقِمُوۡنَ مِنَّاۤ اِلَّاۤ اَنۡ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡنَا وَ مَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلُ ۙ وَ اَنَّ اَکۡثَرَکُمۡ فٰسِقُوۡنَ۔ (سورۃ المائدہ آیت نمبر 59) (تم ( ان سے ) کہو کہ : اے اہل کتاب ! تمہیں اس کے سوا ہماری کون سی بات بری لگتی ہے کہ ہم اللہ پر اور جو کلام ہم پر اتارا گیا اس پر اور جو پہلے اتارا گیا تھا اس پر ایمان لے آئے ہیں ، جبکہ تم میں سے اکثر لوگ نافرمان ہیں؟) آیت نمبر 5 کَذٰلِکَ یُوۡحِیۡۤ اِلَیۡکَ وَ اِلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکَ ۙ اللّٰہُ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ(سورۃ الشوری آیت نمبر 3) ( اے پیغمبر ) اللہ جو عزیز و حکیم ہے ، تم پر اور تم سے پہلے جو ( پیغمبر ) ہوئے ہیں ، ان پر اسی طرح وحی نازل کرتا ہے ) ان تمام آیات میں بلکہ پورے قرآن میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے نازل ہونے والی وحی کا ہی ذکر ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نئے نبی پر نازل ہونے والی وحی کا ذکر نہیں۔ عقیدہ ختم نبوت اتنا ضروری اور اہم عقیدہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے عالم ارواح میں، عالم دنیا میں، عالم برزخ میں، عالم آخرت میں، حجتہ الوداع کے موقع پر ،درود شریف میں اور معراج کے موقع پر اس کا تذکرہ کروایا۔ "عالم ارواح میں عقیدہ ختم نبوت کا تذکرہ " وَ اِذۡ اَخَذَ اللّٰہُ مِیۡثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیۡتُکُمۡ مِّنۡ کِتٰبٍ وَّ حِکۡمَۃٍ ثُمَّ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمۡ لَتُؤۡمِنُنَّ بِہٖ وَ لَتَنۡصُرُنَّہٗ ؕ قَالَ ءَاَقۡرَرۡتُمۡ وَ اَخَذۡتُمۡ ؕ عَلٰی ذٰلِکُمۡ اِصۡرِیۡ ؕ قَالُوۡۤا اَقۡرَرۡنَا ؕ قَالَ فَاشۡہَدُوۡا وَ اَنَا مَعَکُمۡ مِّنَ الشّٰہِدِیۡنَ۔ (آل عمران آیت نمبر 81) (اور ( ان کو وہ وقت یاد دلاؤ ) جب اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ : اگر میں تم کو کتاب اور حکمت عطا کروں ، پھر تمہارے پاس کوئی رسول آئے جو اس ( کتاب ) کی تصدیق کرے جو تمہارے پاس ہے ، تو تم اس پر ضرور ایمان لاؤ گے ، اور ضرور اس کی مدد کرو گے ۔ اللہ نے ( ان پیغمبروں سے ) کہا تھا کہ : کیا تم اس بات کا اقرار کرتے ہو اور میری طرف سے دی ہوئی یہ ذمہ داری اٹھاتے ہو؟ انہوں نے کہا تھا : ہم اقرار کرتے ہیں ۔ اللہ نے کہا : تو پھر ( ایک دوسرے کے اقرار کے ) گواہ بن جاؤ ، اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہی میں شامل ہوں) اس آیت کریمہ میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا ذکر ہے کہ اگر وہ آخری نبی کسی دوسرے نبی کے زمانہ نبوت میں آ گئے تو اس نبی کو اپنی نبوت چھوڑ کر نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنی پڑے گی ۔ یعنی عالم ارواح میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا تذکرہ ہورہا ہے۔ "عالم دنیا میں عقیدہ ختم نبوت کا تذکرہ" عالم دنیا میں سب سے پہلے سیدنا آدم علیہ السلام پیدا ہوئے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "انی عنداللہ مکتوب خاتم النبیین وان آدم لمنجدل فی طیینتہ" میں اس وقت بھی ( لوح محفوظ ) میں آخری نبی لکھا ہوا تھا جب آدم علیہ السلام ابھی گارے میں تھے۔ (مشکوۃ صفحہ 513 ، کنزالعمال حدیث نمبر 31960) اللہ تعالٰی نے دنیا میں جس نبی کو بھی بھیجا اس کے سامنے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے کا ذکر یوں فرمایا ۔ "لم یبعث اللہ نبیا آدم ومن بعدہ الا اخذ اللہ علیہ العھد لئن بعث محمد صلی اللہ علیہ وسلم وھو حی لیومنن بہ ولینصرنہ " حق تعالی نے انبیاء کرام علیہم السلام میں سے جس کو بھی مبعوث فرمایا تو یہ عہد ان سے ضرور لیا کہ اگر ان کی زندگی میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئیں تو وہ ان پر ایمان لائیں اور ان کی مدد کریں۔ (ابن جریر جلد 3 صفحہ 232) اس کے علاوہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "بین کتفی آدم مکتوب محمد رسول اللہ خاتم النبیین" آدم علیہ السلام کے دونوں کندھوں کے درمیان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی لکھا ہوا تھا ۔ (خصائص الکبری جلد 1 صفحہ 19) اس کے علاوہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لما نزل آدم بالھند واستوحش فنزل جبرائیل ۔ فنادی باالاذان اللہ اکبر مرتین۔ اشھد ان لا الہ الااللہ مرتین۔ اشھد ان محمد الرسول اللہ مرتین۔ قال آدم من محمد۔ فقال ھو آخر ولدک من الانبیاء ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدم علیہ السلام جب ہند میں نازل ہوئے تو ان کو (بوجہ تنہائی) وحشت ہوئی تو جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور اذان پڑھی۔ اللہ اکبر 2 بار پڑھا ۔ اشھد ان لا الہ الااللہ 2 بار پڑھا ۔ اشھد ان محمد الرسول اللہ 2 بار پڑھا۔ آدم علیہ السلام نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کون ہیں تو جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی جماعت میں سے آپ کے آخری بیٹے ہیں۔ (کنزالعمال حدیث نمبر 32139) "عالم برزخ یعنی عالم قبر میں عقیدہ ختم نبوت کا تذکرہ" قبر میں جب فرشتے مردے سے سوال کریں گے کہ تیرا رب کون ہے اور تیرا دین کیا ہے اور تیرے نبی کون سے ہیں۔ تو مردہ جواب دے گا کہ ربی اللہ وحدہ لاشریک لہ الاسلام دینی محمد نبی وھو خاتم النبیین فیقولان لہ صدقت۔ میرا رب وحدہ لاشریک ہے ۔ میرا دین اسلام ہے ۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم میرے نبی ہیں اور وہ آخری نبی ہیں۔ یہ سن کر فرشتے کہیں گے کہ تو نے سچ کہا ۔ (تفسیر درمنثور جلد 6 صفحہ 165) "عالم آخرت میں بھی عقیدہ ختم نبوت کا تذکرہ" "عن ابی ھریرۃ فی حدیث الشفاعتہ فیقول لھم عیسی علیہ السلام ۔۔۔‏‏‏‏‏‏اذْهَبُوا إِلَى مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏فَيَأْتُونَ مُحَمَّدًا، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُونَ:‏‏‏‏ يَا مُحَمَّدُ، ‏‏‏‏‏‏أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ وَخَاتِمُ الْأَنْبِيَاءِ" (بخاری حدیث نمبر 4712) (حضرت ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ سے ایک طویل روایت میں ذکر کیا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ جب لوگ حضرت عیسی علیہ السلام سے قیامت کے روز شفاعت کے لئے عرض کریں گے تو وہ کہیں گے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاو ۔ لوگ میرے پاس آیئں گے اور کہیں گے اے اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی) لیجئے قیامت کے دن بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا تذکرہ ہوگا۔ "حجتہ الوداع میں ختم نبوت کا تذکرہ" "عن ابی امامتہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی خطبتہ یوم حجتہ الوداع ایھاالناس انہ لانبی بعدی ولا امتہ بعدکم" (حضرت ابوامامتہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نیے اپنے خطبہ حجتہ الوداع میں فرمایا اے لوگو! نہ میرے بعد کوئی نبی ہوگا اور نہ تمہارے بعد کوئی امت ہوگی) (منتخب کنزالعمال برحاشیہ مسند احمد جلد 2 صفحہ صفحہ 391) :خلاصہ ساری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ نبیوں کی تعداد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے پوری ہوچکی ہے۔ ختم نبوت کا عقیدہ اتنا ضروری اور اہم عقیدہ ہےکہ عالم ارواح ہو یا عالم دنیا ،عالم برزخ ہو یا عالم آخرت ، ہر جگہ اللہ تعالٰی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے کے تذکرے کروائے ہیں۔ .اگلے سبق میں ہم عقیدہ ختم نبوت پر قرآنی دلیل کا جائزہ لیں گے
  15. Question: What is riyāʾ and can you please advise how to fix it? Answer: Bismillahi Taʿālā Assalāmu ʿalaykum waraḥmatullāhī wabrakātuh, Riyāʾ means “show off”. It is an illness of the heart which remains hidden, unless accountability is made of it. Riyāʾ can creep into many different forms and can afflict even the righteous. Scholars have written numerous treatise on rectification of riyāʾ in one’s thoughts, actions and ʿibādāt. It has a tendency of eating away one’s good deeds like fire. Many actions and ʿibādāt are affected by insincerity leading to Riyāʾ where one starts to do actions to please one’s nafs instead of Allah. If one were to think hard then making our nafs’s pleasure a goal instead of pleasing Allah is nothing short of ascribing partners to Allah. Imām Tirmiẓī raḥimahullāh has pointed towards this while quoting the hadeeth, “Indeed riyāʾ is shirk” In our times, we seek quick fixes for everything. While there is no quick fix for a life long misplaced sincerity, one prescription given by our teachers for shunning riyāʾ and strengthening one’s ikhlās is through sincere “Istighfār“. For every action you do, follow it with sincere Istighfārfrom Allah for not having sincere intention in it. InshāʾAllāh, over time this will rectify the intention and diminish the riyāʾ. At the same time, keep close guidance from pious scholars and guides who can assist you in progress of your heart’s rectification. Finally, one should also be mindful that many individuals who realize the gravity of riyāʾ tend to abandon their ʿibādāt in fear of falling prey to riyāʾ. This retaliation itself is nothing less than the calamity of riyāʾ itself. The idea is to gain closeness of Allāh, inward and outward. Hence if avoidance of riyāʾ leads one to abandon the very act which was to take him closer to Allah, then shayṭān has fooled such an individual into abandoning good action. It is at this juncture, the above prescription is most useful. Carry on with the ʿibādah, while continuing to seek istighfārfrom Allāh. May Allah Taʿālā assist you in abundance and provide you freedom from riyāʾ like the pious aslaaf (predecessors), Ameen. And Allāh Taʿālā Knows best, Wassalamu ʿalaykum, Mufti Faisal al-Mahmudi سنن الترمذي – شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي (4/ 110) عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: «إِنَّ الرِّيَاءَ شِرْكٌ fatwa.ca
  16. THE LINEAGE OF NABI (SALLALLAHU ‘ALAYHI WASALLAM) Question Is this lineage of Nabi (sallahu ‘alayhi wasallam) authentic? 1. Sayyiduna Muhammad 2. ibn ‘Abdullah, 3. ibn ‘Abdul Muttalib (also known as Shaybah), 4. ibn Hashim, (also known as ‘Amr), 5. ibn ‘Abd Munâf (also known as Al Mugheera), 6. ibn Qusayy (also known as Zayd), 7. ibn Kilab, 8. ibn Murrah, 9. ibn Ka’b, 10. ibn Lu’ayy, 11. ibn Ghalib, 12. ibn Fahr (who was called Quraysh, and whose tribe was named after him), 13. ibn Malik, 14. ibn An-Nadr (also known as Qays), 15. ibn Kinanah, 16. ibn Khuzaymah, 17. ibn Mudrikah (who was also called ‘Amir), 18. ibn Elias, 19. ibn Mudar, 20. ibn Nizar, 21. ibn Ma’ad, 22. ibn Adnan, 23. ibn Humaisi, 24. ibn Salaman, 25. ibn ‘Aws, 26. ibn Buz, 27. ibn Qamwal, 28. ibn Obai, 29. ibn ‘Awwam, 30. ibn Nashid, 31. ibn Haza, 32. ibn Bildas, 33. ibn Yadlaf, 34. ibn Tabikh, 35. ibn Jahim, 36. ibn Nahish, 37. ibn Makhi, 38. ibn ‘Aid, 39. ibn ‘Abqar, 40. ibn ‘Ubaid, 41. ibn Ad Da’a, 42. ibn Hamdan, 43. ibn Sanbir, 44. ibn Yathrabi, 45. ibn Yahzin, 46. ibn Yalhan, 47. ibn Ar’awi, 48. ibn ‘Aid, 49. ibn Deshan, 50. ibn ‘Aisar, 51. ibn Afnad, 52. ibn Aiham, 53. ibn Muksar, 54. ibn Nahith, 55. ibn Zarih, 56. ibn Sami, 57. ibn Mazzi, 58. ibn ‘Awda, 59. ibn Aram, 60. ibn Qaidar, 61. ibn Sayyiduna Isma’il Zabeehullah, 62. ibn Sayyiduna Ibrahim Khaleelullah, 63. ibn Tarih (also known as Azar), 64. ibn Nahur, 65. ibn Saru, 66. ibn Ra’u, 67. ibn Fâlikh, 68. ibn Abir, 69. ibn Shalikh, 70. ibn Arfakhshad, 71. ibn Sam, ibn Sayyiduna Nuh Najiyullah, 72. ibn Lamik, 73. ibn Mutwashlak, 74. ibn Sayyiduna Idrees (also known as Akhnukh), 75. ibn Yarid, 76. ibn Mahla’il, 77. ibn Qaiban, 78. ibn Anusha, 79. ibn Sayyiduna Shith, 80. ibn Sayyiduna Adam (May Allah’s peace and mercy be upon all of them). Answer The genealogical tree as far as ‘Adnan (no.22) is unanimously correct and recorded by Imam Bukhari (rahimahullah) in his Sahih (before Hadith: 3851). However, there is difference of opinion regarding the rest of the tree. It was the opinion of Sayyiduna ‘Abdullah ibn ‘Abbas that one should not even endeavor to establish more than this. (Refer to Zad al-Ma’ad, vol.1 pg.70 & Fathul Bari, before Hadith: 3851) Imam ibn Sa’d has reported on the authority of Sayyiduna ‘Abdullah ibn ‘Abbas that whenever Rasulullah used to mention his lineage, he never used to go beyond Ma’ad ibn Adnan. (Fathul Bari, before Hadith: 3851) And Allah Ta’ala Knows best, Answered by: Moulana Muhammad Abasoomar Checked by: Moulana Haroon Abasoomar hadithanswers
  17. A general guideline in finding the right muftī to ask fatwā in today’s time With all the options of different ʿulamāʾ and muftiyān (pl. muftī), it is really a new form of test for a questioner to keep his intention pure. Along with a pure intention, ikhlāṣ in action plays a very important role. The goal of asking a muftī a question is to find out what Allāh wants from a person in a certain dilemma. This is the crux of asking for a fatwā. By learning what the Sharīʿah demands at that specific juncture in life, a person comes to know what action he must take so that he gain the closeness of Allāh by fulfilling His orders. Hence, the intent should not only be of ascertaining what the easiest way is to score “pass” in some matter. With that in mind, a layman should find one muftī that he completely trusts with his heart and always stick to asking him. To choose this muftī, he should make sure that the muftī is academically well-read and engrossed in research enough to give him all the answers. Hence the suggestion is not just to find anyone who completed his iftāʾ course and gained the title of “Muftī”; rather, one should find someone who has continued his research and also actively issues fatāwā (i.e. answering Islāmic questions). Once a person finds such a muftī and his heart is content with him, he should stop asking multiple muftiyān and rather stick to this particular muftī. This will make his life so much easier and the focus will be shifted towards fulfilling the rulings instead of researching them and trying to find out which muftī’s opinion seems stronger. While the above is the ideal scenario, in today’s time it becomes almost impossible for one muftī to have mastery in all of the broad fields of the Sharīʿah. Hence, if one has access to multiple muftiyān, then while retaining ikhlāṣ, he can certainly take benefit from multiple muftiyān. Keeping that in mind, while all credible, Allāh-fearing muftiyān are equal for a questioner to approach for his question, there still remains a certain decorum which one should try to uphold while doing so. Remember, the only reason one is broadening one’s list of muftiyān is to seek the experts in their respective fields. For example, Muftī A may be an expert in Islāmic Finance and Technology, while Muftī B may be an expert in ʿibādiyyāt (i.e. the various elements of worship). Thus, the questioner should formulate his list of trusted muftiyān as per their field of expertise for him. Hence, the essential element is trust in one’s heart. This does not only refer to generic trust in Muftī A or Muftī B, rather it could mean one’s reliance on Muftī A in regard to the fiqh of financial issues, while reliance on Muftī B with regard to issues of ḥalāl and ḥarām in food. Now that we have so many avenues of approaching different muftiyān, I recommend that if a person cannot just stick to one muftī all together, then he should have a set group of muftiyān for specific fields. At first it may seem tedious, but remember that we are not making a huge database of muftiyān. When an issue arises, one will simply review the list to see which muftī to approach for that field. Thereafter handling the responses will become much easier. If an individual can make such a list with a single muftī upon whom he relies the most, it makes his life very easy. But just in case he has more than one muftī to approach, then he should follow the following method. Let’s assume that the questioner knows that Muftī A and Muftī B are experts in financial issues. He has complete iṭmiʾnān (peace of mind) in their decision. Then, in the field of food issues, he relies on Mufti C or Mufti D or Organization E who are experts in food science. His heart is completely content with their decision knowing that they have expertise. So now, when a question in finance comes to him, he does not need to look at C, D, or E. He knows he can simply approach A and B. Remember that the questioner already knows that his reliance is on both of them. If both muftiyān in his list of relied upon muftiyān give a unanimous answer, then he does not need to look any further. However, if one of them gives permission while the other does not, then since his primary goal of asking the question is to gain taqwā, he will follow and practice upon whichever opinion takes him closer to Allāh, i.e through taqwā. If one has more than two muftiyān in such a list, then generally taqwā would still demand to opt for the cautious view. This is why I generally do not suggest adding too many muftiyān in the mix as it only makes one’s decision making difficult. The application of this procedure demonstrates that opting for the cautious fatwā is the key. If the questioner has a question in relation to food, then let him ask C, D, and E to get their expert opinion. If their answers are unanimous, then there is no further question required. If they give differing responses between permissibility or impermissibility, then caution demands that one opts for the view of impermissibility. In this case, if the item which he asked about was in fact permissible, he would have stayed away from it out of caution and gained additional rewards from Allāh. However, if the item happens to be impermissible (i.e the muftī who gave the fatwā of permissibility erred), then the questioner would have saved himself from something impermissible. Similarly, in the case of ʿibādah, let’s say the questioner is wondering if he should repeat some act of worship he performed which he fears may have been invalidated due to some act. According to his list of relied upon muftiyān, he will only ask those whom he found to be experts in this field. If both muftiyān in his list give him a unanimous answer, then there is no other course of action to consider. However, if one muftī gives fatwā that the act of worship must be repeated while the other gave the fatwā that repeating the act is not necessary, then opting for the cautious fatwā here would mean to take the fatwā of repeating the act. This is because if the act in reality did not need to be repeated, his act would become nafl and he would get rewards for the act (i.e. performing extra worship) as well for as opting for cautious opinion. However, if it did have to be repeated, then he would have saved himself from the sin of not repeating it. Once you understand this mechanism, you will realize that the questioner’s own sincerity plays an important role. By keeping to this code, one would always aspire to be better oneself in one’s religion for the sake of Allāh. The only question that then remains is: If the taqwā position is to take the cautious view, does that mean taking the non-cautious view is still permissible? In short: Yes, it does. However, since the desire of a muʾmin is to do one’s best for Allāh, one’s aim should be to adopt the position of taqwā. Having this thought in one’s heart will always keep one yearning for the best as a questioner. However, if for some reason he is unable to do the best and does not opt for the cautious opinion, then he will still retain the desire in his heart along with regret for having lost the opportunity to gain more rewards. We hope that Allāh will still shower His blessings upon him. But at this point, the person should always remember that he has knowingly chosen the lesser opinion and those who take the better opinion have shown greater strength and love of īmān. Wallāhu Aʿlam Muftī Faisal al-Maḥmūdī qafila.org
  18. Question: Could you confirm if we can hold the qur’an and read from it while performing congregational salah? Answer: Bismillahi Ta’ala Assalamu alaikum warahmatullahi wabrakatuh, According to Ḥanafiyyah holding the Qurʾān in salah is an excessive action which nullifies the salah for the one who does it. If the Imām holds it, then according to Imām Abu Ḥanīfah raḥimahullāh, his ṣalāh will be void and hence making the entire congregation void. If a muqtadī (follower) holds the Qurʾān behind an Imām, then only this follower will be committing an excessive action, hence only his salah will be void and not the Imām’s or the congregation’s. However, If this muqtadī were to then give correction to the Imām by reading from his muṣḥaf then this is classified as the Imām taking assistance from someone who is out of ṣalāh (i.e. a muqtadī whose ṣalāh just got invalidated due to excessive action of holding the muṣḥaf). In essence, Imām’s taking assistance from someone not in ṣalāh is also contrary to the actions of Salah. Thus, if the imam takes this correction from that muqtadī then his salah will also become invalidated which further invalidates the ṣalāh of the entire congregation. And Allah Ta’ala Knows best, Wassalamu `alaykum, Mufti Faisal al-Mahmudi بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع – دار الكتب العلمية (1/ 236) ولو قرأ المصلي من المصحف فصلاته فاسدة عند أبي حنيفة، وعند أبي يوسف ومحمد تامة ويكره وقال الشافعي: لا يكره واحتجوا بما روي أن مولى لعائشة – رضي الله عنها – يقال له ذكوان كان يؤم الناس في رمضان وكان يقرأ من المصحف ولأن النظر في المصحف عبادة والقراءة عبادة وانضمام العبادة إلى العبادة لا يوجب الفساد إلا أنه يكره عندهما؛ لأنه تشبه بأهل الكتاب، والشافعي يقول ما نهينا عن التشبه بهم في كل شيء فإنا نأكل ما يأكلون ولأبي حنيفة طريقتان: إحداهما أن ما يوجد منه من حمل المصحف وتقليب الأوراق والنظر فيه أعمال كثيرة ليست من أعمال الصلاة ولا حاجة إلى تحملها في الصلاة فتفسد الصلاة، وقياس هذه الطريقة أنه لو كان المصحف موضوعا بين يديه ويقرأ منه من غير حمل وتقليب الأوراق أو قرأ ما هو مكتوب على المحراب من القرآن لا تفسد صلاته لعدم المفسد وهو العمل الكثير، والطريقة الثانية أن هذا يلقن من المصحف فيكون تعلما منه ألا ترى أن من يأخذ من المصحف يسمى متعلما فصار كما لو تعلم من معلم وذا يفسد الصلاة وكذا هذا، وهذه الطريقة لا توجب الفصل بين ما إذا كان حاملا للمصحف مقلبا للأوراق وبين ما إذا كان موضوعا بين يديه ولا يقلب الأوراق، وأما حديث ذكوان فيحتمل أن عائشة ومن كان من أهل الفتوى من الصحابة لم يعلموا بذلك وهذا هو الظاهر بدليل أن هذا الصنيع مكروه بلا خلاف ولو علموا بذلك لما مكنوه من عمل المكروه في جميع شهر رمضان من غير حاجة، ويحتمل أن يكون قول الراوي كان يؤم الناس في رمضان وكان يقرأ من المصحف إخبارا عن حالتين مختلفتين أي كان يؤم الناس في رمضان وكان يقرأ من المصحف في غير حالة الصلاة إشعارا منه أنه لم يكن يقرأ القرآن ظاهره فكان يؤم ببعض سور القرآن دون أن يختم أو كان يستظهر كل يوم ورد كل ليلة ليعلم أن قراءة جميع القرآن في قيام رمضان ليست بفرض. الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) – دار الفكر (1/ 624) (قوله لأنه تعلم) ذكروا لأبي حنيفة في علة الفساد وجهين. أحدهما: أن حمل المصحف والنظر فيه وتقليب الأوراق عمل كثير. والثاني أنه تلقن من المصحف فصار كما إذا تلقن من غيره. وعلى الثاني لا فرق بين الموضوع والمحمول عنده، وعلى الأول يفترقان وصحح الثاني في الكافي تبعا لتصحيح السرخسي؛ وعليه لو لم يكن قادرا على القراءة إلا من المصحف فصلى بلا قراءة ذكر الفضلي أنها تجزيه وصحح في الظهيرة عدمه والظاهر أنه مفرع على الوجه الأول الضعيف بحر درر الحكام شرح غرر الأحكام – دار إحياء الكتب العربية (1/ 103) (قوله؛ لأنه يتلقن من المصحف. . . إلخ) أشار به إلى أنه لا فرق بين كون المصحف محمولا أو موضوعا فتفسد بكل حال وهو الصحيح كما في الكافي وهذا إذا لم يكن حافظا إذ لو كان يحفظ إلا أنه نظر فقرأ لا تفسد كما في الفتح من غير حكاية خلاف. وقال الزيلعي، ولو كان يحفظ القرآن وقرأه من مكتوب من غير حمل المصحف قالوا لا تفسد صلاته لعدم الأمرين جميعا اهـ يعني التلقين والحمل ففيه إشارة إلى الخلاف اهـ. وقال الفضلي ولهذا أي لكون التلقين من الغير مفسدا فكذا من المصحف أجمعنا على أنه إذا كان يمكنه أن يقرأ من المصحف ولا يمكنه أن يقرأ عن ظهر القلب لو صلى بغير قراءة تجزئه اهـ، ذكره الكاكي. وقال في البحر ما ذكره الفضلي متفرع على الصحيح من أن علة الفساد تلقنه، وبهذا ظهر أن تصحيح الظهيرية أنه إذا لم يكن قادرا إلا على القراءة من المصحف فصلى بغير قراءة الأصح أنها لا تجوز متفرع على الضعيف من أن علة الفساد الحمل وتقليب الأوراق. اهـ. fatwa.ca
  19. Question What is your opinion about making istinjā’ with zamzam water? Here so many people make wudhu’ with zam-zam water. Is this appropriate? Answer: Bismillāhi Taʿala, Waʿlaikum Assalām Waraḥmatullāh, If one is in state of ṭahārah (free from any ritual or physical impurity) and already has wuḍū’, then it is permissible to do wuḍū’ merely to attain barakah of zamzam. Similarly, it is permissible to take barakahfrom it by soaking some cloth in it. If one is not in the state of wuḍū’, then there are two possibilities. Either there is other water available or not. If there is other water available, then using zamzam for doing wuḍū’ will be makrūh. However if out of need while there is no other means of making the wuḍū’, using zamzam will not be makrūh. If on is not in a state of ṭahārah (either has physical najāsah, or is junub), then it is remain makrūh to use zamzam. The same will apply for removing any physical impurity from one’s body or cloth. Similarly, making istinjā’ with zamzam is always makruh. According to some fuqahā’ it is even harāmto use zamzam for istinjā’. Fiqhi books mention that some incidents have been recorded where people used zamzam for istinjā’ and were affected by piles disease. Nontheless, zamzam is blessed water, and should be afforded its honour. It is inappropriate to use it otherwise in places of dishonor. [1] Wallāhu Aʿlam, Wassalamu ʿalaykum, Mufti Faisal al-Mahmudi www.fatwa.ca [1] يجوز الوضوء والغسل بماء زمزم عندنا غير كراهة بل ثوابه أكبر وفصل صاحب "لباب المناسك" آخر الكتاب فقال: يجوز الاغتسال والتوضؤ بماء زمزم إن كان على طهارة للتبرك فلا ينبغي أن يغتسل به جنب ولا محدث ولا في مكان نجس ولا يستنجي به ولا يزال به نجاسة حقيقة وعن بعض العلماء تحريم ذلك, وقيل: إن بعض الناس استنجى به فحصل له باسور اه (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 21)) (قوله: بلا كراهة) أشار بذلك إلى فائدة التصريح به مع دخوله في قوله وآبار وسيذكر الشارح في آخر كتاب الحج أنه يكره الاستنجاء بماء زمزم لا الاغتسال. اهـ. فاستفيد منه أن نفي الكراهة خاص في رفع الحدث بخلاف الخبث. (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 180)) أما الوضوء به لمن كان طاهر الأعضاء فلا أعلم في جوازه خلافا بل صرح باستحبابه غير واحد نقلا عن ابن حبيب. وكذلك لا أعلم في جواز الغسل به لمن كان طاهر الأعضاء خلافا بل صرح ابن حبيب أيضا باستحباب الغسل به قال فضل بن مسلمة في اختصار الواضحة لابن حبيب ويستحب لمن حج أن يستكثر من ماء زمزم تبركا ببركته يكون منه شربه ووضوءه واغتساله ما أقام بمكة ويكثر من الدعاء عند شربه انتهى، ويؤخذ استحباب الغسل أيضا من كلام اللخمي (مواهب الجليل في شرح مختصر خليل (1/ 46)) fatwa.ca
  20. مجاہدات سلوک کی شرعی حیثیت اللہ جل شانہ کا ارشاد پاک ہے : طہٰ! ہم نے آپ پر قرآن اس لیے نہیں اتاراکہ آپ خواہ مخواہ کسی محنت شاقہ اور تکلیف شدید میں مبتلا ہوں ۔” ( طہٰ :1،2 ) بعض روایات میں ہے کہ ابتدائے اسلام میں حضور ﷺ تہجد کی نماز میں کھڑے ہوکر بہت زیادہ قرآن پڑھتے تھے جس کی وجہ سے پیروں میں ورم آجاتا تھا اس آیت میں اسی مجاہدہ وریاضت کی طرف اشارہ ہے ۔ ( ابن مردویہ ) 2۔ارشاد ربانی ہے : “اے مزمل! راتوں کو اپنے پروردگار کی عبادت میں کھڑے رہا کرو ، ہاں ! شب کا کچھ حصہ یعنی آدھی رات یا تہائی رات یا دو تہائی رات آرام بھی کرلیا کرو۔ اور قرآن کو ترتیل کے ساتھ پڑھو ۔ ہم آپ پر ایک گراں بار کلام اتارنے والے ہیں ۔ بے شک شب بیداری بڑی بھاری ریاضت اور نفس کشی ہے ۔ ( المزمل :2،1 ) 3۔ارشاد باری تعالیٰ ہے : اور جو لوگ ہماری راہ میں مشقیں برداشت کرتے ہیں ہم ان کو اپنے راستے ضرور دکھاتے ہیں ۔” ( العنکبوت ) ان آیات سے معلوم ہو ا کہ مشقوں اورشدائد کو جھیلنے کے بعد ہی انسان میں پختگی آتی ہے ۔ ریاضات ومجاہدات کی چھلنی میں چھلنے کے بعد ہی کردار وعزیمت کی راہیں ہموار ہوتی ہیں ۔ا ن آیات میں یہ اشارہ بھی ہے کہ نبی کریمﷺ کے عالی ترین رتبے اور مقام کا ایک راز سخت ترین مشقتیں برداشت کرنا بھی ہے ۔سورہ طہٰ اور مزمل کی آیات میں مزید ایک فائدہ یہ بھی بیان کیا گیاہے مجاہدات وریاضات میں افراط اورحد سے تجاوز نہیں ہونا چاہیے اعتدال اور میانہ روی کو ہر دم ملحوظ نظر رکھنا چاہیے۔مجاہدات میں اتان غلو نہیں ہونا چاہیے کہ خوس اپنی ذات اور اہل وعیال کے حقوق سے غفلت ہوجائے ۔ 4۔ حضرت فضالہ کامل سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” کامل مجاہد وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی شریعت کے مقابلے میں اپنے نفس کے خلاف جہاد کرے ” ( بیہقی فی شعب الایمان بحوالہ لتکشف ص 204 ) 5۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ حدیث قدسی بیان فرمائی ” اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ” اے ابن آدم تو میری عبادت کے لیے فارغ ہوجا میں تیرے دل کو غنا سے بھر دوں گااور تیری محتاجی کو ختم کروں گا اور اگر ایسا نہیں کرے گا تو تیرے دونوں ہاتھوں کو مشاغل سے بھر دوں گا اور تیری محتاجی بھی ختم نہیں کروں گا ۔” ( ترمذی بحوالہ ( ص 383) 6۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک دن بانس کی ایک دیوار کی گار ے سے لپائی کررہاتھا کہ وہاں سے نبی کریم ﷺکا گزرہوا۔آپ ﷺ نے دیکھ کر فرمایا عبداللہ یہ کیا ہے ؟ میں نے جواب دیا : حضورﷺ دیوار کی مرمت کررہا ہوں۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : میں تو موت کو اس سےسے بھی جلدی آنے والی دیکھتا ہوں (ابوداؤد ترمذی بحوالہ المکشف ص 272) حضرت جابررضی اللہ عنہ ، حضرت عمررضی اللہ عنہ کا ایک موقع پر کہا ہو ا قول نقل کرتے ہیں : تمہیں جس چیز کا شوق ہو اسے خرید ہی لیتے ہو۔ یہ کوئی اچھی بات نہیں کیونکہ آدمی کے مسرف ہونے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ جس چیز کی چاہت ہو اسے خرید کر کھالیاکرے ( موطا مالک بحوالہ التکشف ص334 ) حضرت معاذ بن انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” جوشخص قدرت کے باوجود زینت کے لباس کو ازراہ تواضع چھوڑ دے گا ۔ قیامت کے دن اللہ اسے عزت واکرام کے طور پر تمام خلائق کے سامنے بلائیں گے اور یہ اختیار دیں گے کہ ایمان کے جوڑوں میں سے جو جوڑا پسند ہو پہن لے۔ اگر چہ ایمانی رتبے کے اعتبار سے وہ اس سے کم درجہ کا مستحق ہو۔ (ترمذی بحوالہ التکشف ص377) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت کی مثل ہے “۔ ( مشکوۃ : 439) حضرت ابو ہریرہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا جہنم کو خواہشات کی پیروی سے اور جنت کو شدائد اور مشقوں کے جھیلنے سے ڈھانپا گیاہے ۔ ” ( مشکوۃ :439) 11۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے یہ دعا فرمائی : ” اے اللہ ! آل محمد کا رزق بقدرکفایت کردے ( مشکوۃ: 440) ان تمام احادیث میں ریاضت ومجاہدہ کی زندگی گزارنے کا سبق ملتا ہے بشرطیکہ ا س پر صبر اور دوام آسکے ۔ اگر مجاہدہ اور قناعت والی زندگی پر صبر نہ ہوسکے یا ریاضت پر دوام نہ کرسکتا ہو تو وسعت اور فراخی سے زندگی گزارے اور جس قدر طاقت ہو اتنے ہی مجاہدات کرے یہ تووہ احادیث تھیں جن سے مجاہدہ کی اصل ثابت ہوتی ہے اب ایسی احادیث ذکر کی جاتی ہیں جن میں مجاہدات کے ثبوت کے ساتھ ساتھ تنبیہ بھی پائی جاتی ہے کہ ان مجاہدات وریاضت میں غلو نہ ہونا چاہیے ۔اعتدال اور میانہ روی ہونی چاہیے۔ 12۔ حضرت انس ر ضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ مسجد میں تشریف لائے تو ایک رسی کو دیکھا جودوستونوں کےدرمیان بندھی ہوئی تھی ۔ فرمایا کہ یہ کیا ہے ؟ حاضرین نے عرض کی کہ یہ حضرت زینب رضی اللہ عنہ باندھی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ جب عبادت م نشاط کی کمی محسوس ہو تو اس سے لگ کر کھڑی ہوجائے۔ حضورﷺ نے ارشادفرمایا : یہ طریقہ ٹھیک نہیں ، رسی کھول دو، نماز تہجد طبیعت کی تازگی تک پڑھنی چاہیے اور جب احساس تھکن ہو تو بیٹھ جانا چاہیے ۔ ( بخاری ، نسائی ، ابو داؤد بحوالہ المکشف :265 ) حضرت عبداللہ بن عباس جب خوارج کی تفہیم کے لیے گئے تویمن کا ایک عمدہ جوڑا پہن کر تشریف لے گئے ، خوارج نے اس پر اعتراض کیا تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” تم اس کی وجہ سے مجھ پر کیوں اعتراض کررہے ہو ، میں نے خودرسول اللہ ﷺ کے جسم مبارک پر نفیس جوڑا دیکھا ہے۔” ( ابوداؤد بحوالہ المکشف ص378) 14۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” ہر نئے کام میں ابتداء جوش وخروش ہوتا ہے اورہر جوش کا انجام سستی ہے ۔ لہذا صاحب عمل کو دیکھنا چاہیے اگر وہ میانہ روی کے ساتھ ٹھیک ٹھیک کام کرےتو اس کی کامیابی کی امید رکھو اور اگر اتنا زیادہ کام کرے کہ اس پر انگلیوں سے اشارے ہونے لگیں تو اس کو زیادہ اہمیت مت دو ( ترمذی بحوالہ التکشف ص 417) 15: حضورﷺ کا ارشاد ہے : ” مشقت اتنی اٹھاؤ جس کو نبھانے کی طاقت ہو۔ ( بخاری،مسلم بحوالہ التشرف ) 16: ارشاد نبوی ہے : ” میانہ روی تمام امور میں بہترین چیز ہے ۔ ” ( بیہقی بحوالہ التشرف ) ان تما م قرآنی آیات اور احادیث نبویہ سے صاف صاف یہ ثابت ہوتا ہے کہ مجاہدات وریاضات کوئی بے اصل چیز نہیں ، بلکہ شریعت میں اس کا ثبوت ہے ۔ ایک چیز بدعت اس وقت ہوتی ہے جب وہ کسی اصل شرعی سے ثابت یا اس کے تحت داخل نہ ہو اور اہل تصوف کے ہاں رائج مجاہدات وریاضات اصل شرعی کے تحت داخل ہی نہیں ثابت بھی ہیں ۔ لہذا انہیں بدعت کہنا سراسر ناواقفیت اور لاعلمی کی دلیل ہے۔ مذکورہ بالا آیاتواحادیث سے ” مجاہدات ” کی اصل ثابت ہوتی ہی ہے قیاس شرعی عقل اور درایت سے بھی اس کا ثبوت واضح ہے جویہ ہے : حضرت انسان اول جب جنت میں تھے توکوئی بیماری لاحق نہ ہوتی تھی لیکن جب جنت اورقرب ومعرفت الٰہی کے بدیہی دلائل سے دوری ہوئی اورحضرت انسان دنیا پر آیا تو جسمانی بیماریاں ظاہر ہونے لگیں اورقیام جنت کے زمانہ سے جتنا فاصلہ ہوتا گیا اتنی بیامریاں وجود میں آنے لگیں گذشتہ دور میں جتنی بیماریاں تھیں دورحاضر میں اس سے زیادہ تعداد میں ہیں اور اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتارہے گا اللہ تعالیٰ نے ا ن جسمانی بیماریوں کے تدارک کے لیے علم طب کو پیدا فرمایا جو مختلف بیماریوں کا مختلف نسخہ جات سے اور موسموں اور طبیعتوں کے لحاظ سے علاج کرتا ہے اور مریض کو دوران علاج بہت سی چیزوں سے پرہیز کراتا ہے کڑوی دوائی اور مختلف قسم کی پابندیوں پر کاربند رہنے کے بعدس مریض کو شفایابی ہوتی ہے پھر طب کے طریقے اورسلسلے بھی متعدد ہیں ۔ مثلا : طبس یونانی ، ہومیو پیتھی ، ایلو پیتھی وغیرہ ۔ بالکل اسی طرح دور نبوی وعہد صحابہ میں بھی تصوف یعنی طب روحانی کی ضرورت نہ تھی ، جیسے جیسے زمانہ نبوت سے بعد ہوتا گیا طب روحانی کی ضرورت محسوس ہونے لگی ۔سوچنے کی بات ہے کہ اللہ جل شانہ نے جب انسان کی جسمانی بیماریوں کے لیےطب کو پیدا کیا تو کیا وہی خدا انسان کی روحانی بیماریوں کے لیے کوئی طب پیدا نہیں کرے گا۔ جبکہ مقام ومرتبہ میں روح کا درجہ زیادہ بھی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے خیر القرون میں ہی طب روحانی کو وجود بخشا جوروح کی مختلف بیماریوں کا مختلف طریقوں سے، طبیعتو ں کے لحاظ سے علاج کرتی ہے اورروحانی بیماریوں کے خاتمے اور مقصود اصلی یعنی قرب ومعیت الٰہی کے حصول کے لیے متعدد ریاضات ومجاہدات کراتی ہے اور اس کے بھی نقشبنیہ، چشتیہ ، قادریہ ، سہروردیہ کی صورتوں میں متعددسلسلے ہیں۔ ان تمام چیزوں کو محض وسائل کے درجہ میں سمجھاجاتا ہے مقصود نہیں سمجھاجاتا۔ مقصود تو صرف ایک چیز ہے اور وہ ہے تعلق مع اللہ ، قرب خداوندی اور معیت الٰہی ۔ تحریر: مفتی انس عبدالرحیم Suffah
×
×
  • Create New...