Jump to content
IslamicTeachings.org

Hazrat Ayyub Alaihis Salam ki bimari


Bint e Aisha

Recommended Posts

*تنبیہات سلسلہ نمبر 152*

*حضرت ایوب علیہ السلام کی بیماری*

*● سوال:*
ایک واقعہ سنتے آرہے ہیں کہ حضرت ایوب علیہ السلام کے جسم میں بیماری اس قدر بڑھ گئی تھی کہ آپ کے جسم میں کیڑے پیدا ہوگئے...
      *کیا یہ بات درست ہے؟*


      ▪ *الجواب باسمه تعالی*

حضرت ایوب علیہ السلام کی بیماری کی یہ تفصیل کہ ان کے جسم میں کیڑے پیدا ہوگئے تھے اسکو مختلف مفسرین نے نقل کیا ہے.

*١. علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ ابن عساکر نے نقل کیا ہے کہ ان کے جسم میں مختلف بیماریاں لگ گئی تھیں یہانتک کہ صرف دل اور زبان بچ گئے تھے۔*
□ قال ابن كثير: وحكى ابن عساكر: ابتلى في جسده بأنواع من البلاء، ولم يبقَ منه عضو سليم سوى قلبه ولسانه... 

*٢. سدی کہتے ہیں کہ جسم کا گوشت گل کر گر گیا تھا یہانتک کہ صرف ہڈیاں اور پٹھے رہ گئے تھے.*
□ وقال السدى: تساقط لحمه حتى لم يبقَ إلاَّ العظم والعصب.

*٣. ابن کثیر البدایة والنهایة میں لکھتے ہیں کہ ایوب علیہ السلام کے جسم پر جذام کی بیماری لگ گئی تھی جس سے دل اور زبان کے علاوہ سارا جسم متاثر ہوا تھا.*
□ قال ابن كثير في كتابه البداية والنهاية (ج:1، ص:207) أنه أصيب بالجزام في سائر بدنه ولم يبقَ منه سليمًا سوى قلبه ولسانه يذكر بهما الله عزوجل.

*٤. حسن بصری اور قتادہ کہتے ہیں کہ ایوب علیہ السلام پر سات سال ایسے گذرے کہ ان کے جسم میں کیڑے نظر آنے لگے تھے.*
□ قال الحسن البصري وقتادة: ابتلى أيوب عليه السلام سبع سنين وأشهرًا يرعى في جسده الدود وتعبث به الدواب.

*٥. علامہ بغوی کہتے ہیں کہ ان کے جسم پر پھوڑے نکلے جس سے ان کا جسم بدبودار ہوگیا اور بستی والوں نے ان کو بستی سے نکال دیا.*
□ من قرنه إلى قدمه تآليل مثل أليات الغنم فوقعت فيه حكة فحك بأظفاره حتى سقطت كلها ثم حكها بالمسوح الخشنة حتى قطعها ثم حكها بالفخار والحجارة الخشنة فلم يزل يحكها حتى نغل لحمه وتقطع وتغير وأنتن وأخرجه أهل القرية فجعلوه على كناسة وجعلوا له عريشا فرفضه خلق. (بغوی)
  
*٦. علامہ قرطبی لکھتے ہیں کہ جسم کا گوشت گل گیا اور جسم میں کیڑے پڑ گئے.*
□ وبالضر في جسمه حتى تناثر لحمه وتدود جسمه، حتى أخرجه أهل قريته إلى خارج القرية. (قرطبی)

*● ان اقوال کا مأخذ:*

حضرت ایوب علیہ السلام کے جسم پر اس قدر قبیح بیماری لگی تھی اس بارے میں  اسرائیلیات ہی اصل ہیں کہ وہاں اس بیماری کی اس طرح کی تفاصیل موجود ہیں، جیسا کہ کتاب السفر جو غالبا انجیل کا کوئی حصہ ہے اس کے عربی ترجمے میں ایسا منقول ہے کہ:
*شیطان کو اللہ تعالی کی طرف سے اجازت ملی تو وہ آیا اور ایوب علیہ السلام کے سر سے پیر تک پھوڑے نکلے اور ایوب علیہ السلام نے سخت کپڑے سے اس کو کھجانا شروع کیا.*
□ ففي هذا السفر ما نصه: فَخَرَجَ الشَّيْطَانُ مِنْ حَضْرَةِ الرَّبِّ، وَضَرَبَ أَيُّوبَ بِقُرْحٍ رَدِيءٍ مِنْ بَاطِنِ قَدَمِهِ إِلَى هَامَتِهِ. فَأَخَذَ لِنَفْسِهِ شَقْفَةً لِيَحْتَكَّ بِهَا وَهُوَ جَالِسٌ فِي وَسَطِ الرَّمَادِ. (أي 2: 7).

*● کیا یہ اسرائیلیات مقبول ہیں؟*
علمائےکرام نے ایسی اسرائیلی روایات کے تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے جو کہ انبیائےکرام علیہم الصلاۃ والسلام کی شان کے منافی ہوں اور ایوب علیہ السلام کے بارے میں یہ تمام روایات شان نبوت کے خلاف ہیں، لہذا اس بارے میں جس قدر قرآن مجید اور احادیث مطہرہ میں آیا ہے اسی پر اکتفا کیا جائےگا.

*١. قاضی ابوبکر ابن العربی کہتے ہیں کہ ایوب علیہ السلام کے بارے میں اتنی بات درست ہے جو قرآن نے بیان کی ہے کہ ان کو تکلیف پہنچی اور تکلیف کی نسبت قرآن مجید میں شیطان کی طرف کی گئی ہے.*
□ قال ابن العربي القاضي أبوبكر رضي الله عنه: ولم يصح عن أيوب في أمره إلا ما أخبرنا الله عنه في كتابه في آيتين؛ الأولى قوله تعالى: ﴿وَأَيُّوبَ إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ﴾ [الأنبياء: 83] والثانية في «ص» ﴿أَنِّي مَسَّنِيَ الشَّيْطَانُ بِنُصْبٍ وَعَذَابٍ﴾.

*٢. علامہ آلوسی روح البیان میں لکھتے ہیں کہ اس میں کسی کا اختلاف نہیں کہ ایوب علیہ السلام کی تکلیف اور امتحان بڑا تھا، البتہ یہ کہنا پڑےگا کہ ان کی بیماری اس قدر نہیں بڑھی تھی کہ وہ قابل نفرت ہوجائیں جیسا کہ قتادہ وغیرہ نے نقل کیا ہے اور قصہ گو لوگوں نے بیان کیا ہے۔*
□ قال الألوسي (ت 1270هـ) في تفسيره روح المعاني: وَعظَمُ بَلائه أي أيوبَ عليه السلامُ ممّا شاعَ وذاعَ ولَم يختلف فيه اثنان…
فلابد من القول بأن ما ابتُلِي به أيوب عليه السلام لم يَصِل إلى حَدِّ الاستقذار والنفْرَة كما يُشعِر به ما روي عن قتادةَ ونَقَلَهُ القُصّاصُ في كُتُبِهم.

*٣. علامہ طبرسی کہتے ہیں کہ امتحان کی یہ صورت تو ممکن ہے کہ فقر آجائے یا آل اولاد ہلاک ہوجائیں لیکن اس طرح کی بیماری کہ لوگ ان سے نفرت کرنے لگیں، انبیائےکرام کی طرف ایسی بات کی نسبت کرنا درست نہیں.*
□ قال الطَبرسي (ت 548هـ): قال أهل التحقيق إنه لا يجوز أن يكون بصفةٍ يَستقذرُه الناسُ عليها لأن فِي ذلك تَنْفيرًا، فأمّا الفقرُ والمرَضُ (الذي لا يُنفِّرُ) وذهابُ الأَهل فيجوز أن يَمتحِنَهُ اللهُ تعالَى بذلك.

*● صحیح روایات میں حضرت ایوب علیہ السلام کا تذکرہ:*

*١.* حضرت ایوب علیہ السلام نہا رہے تھے تو ان پر سونے کی ٹڈیاں گرنے لگی تو ایوب علیہ السلام ان کو جمع کرنے میں لگ گئے تو اللہ تعالی نے فرمایا کہ ایوب! کیا ہم نے تجھ کو اس سے مستغنی نہیں کیا؟ تو ایوب علیہ السلام نے عرض کیا کہ آپ کی برکت سے مستغنی نہیں.
*□* وروى البخاري عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: بينما أيوب يغتسل عرياناً، خرَّ عليه جراد من ذهب، فجعل أيوب يحثو في ثوبه، فناداه ربه، ياأيوب! ألم أكن أغنيتك عما ترى؟ قال: بلى يا رب! ولكن لا غنى بي عن بركتك.

*٢.* وقد روى البزار وغيره عن أنس بن مالك رضي الله عنه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "إن نبي الله أيوب عليه السلام لبث به بلاؤه ثماني عشرة سنة، فرفضه القريب والبعيد إلا رجلين، كانا من أخص إخوانه به، كانا يغدوان إليه ويروحان، فقال: أحدهما لصاحبه: تعلم والله لقد أذنب أيوب ذنباً ما أذنبه أحد من العالمين. قال له صاحبه: وما ذاك؟ قال: من ثماني عشرة سنة لم يرحمه الله، فيكشف ما به، فلما راحا إليه، لم يصبر الرجل حتى ذكر ذلك له. فقال أيوب: لا أدري ما تقول، غير أن الله يعلم أني كنت أمُرُّ على الرجلين يتنازعان، فيذكران الله عزوجل، فأرجع إلى بيتي فأكفر عنهما، كراهية أن يذكرا الله إلا في حق. قال: وكان يخرج إلى حاجته، فإذا قضاها أمسكت امرأته بيده حتى يبلغ، فلما كان ذات يوم أبطأ عليها، وأوحى الله تعالى إلى أيوب عليه السلام، أن {اركض برجلك هذا مغتسل بارد وشراب} فاستبطأته، فتلقته تنظر، فأقبل عليها، قد أذهب الله ما به من البلاء، وهو على أحسن ما كان. فلما رأته قالت: أي بارك الله فيك! هل رأيت نبي الله هذا المبتلى. فوالله على ذلك ما رأيت رجلاً أشبه به منك، إذ كان صحيحاً. قال: فإني أنا هو. قال: وكان له أندران: أندر للقمح، وأندر للشعير. (الأندر: البيدر) فبعث الله سحابتين، فلما كانت إحداهما على أندر القمح، أفرغت فيه الذهب حتى فاض، وأفرغت الأخرى في أندر الشعير حتى فاض.
- قال الهيثمي في "مجمع الزوائد": رجال البزار رجال الصحيح.

*٣. حسن اور قتادہ کہتے ہیں کہ ایوب علیہ السلام کی اولاد زندہ کردی گئی اور اتنی اولاد اور دی گئی.*
□ قال الحسن وقتادة: أحياهم الله تعالى له بأعيانهم، وزادهم مثلهم معهم، ولهذا قال تعالى: {وَوَهَبْنَا لَه أهْلَه وَمِثْلَهُمْ مَعَهُمْ رَحْمَةً مِّنَّا وَذِكْرى لِأُولِي الْأَلْبَابِ}.

*٤. ابوحیان کہتے ہیں کہ جمہور علمائےکرام کا قول یہ ہے کہ انکی تمام اولاد کو زندہ کر دیا گیا اور بیمار ٹھیک ہوگئے اور سب بکھرے کام درست ہوگئے.*
□ قال أبوحيان: والجمهور على أنه تعالى أحيا له من مات من أهله، وعافى المرضى، وجمع عليه من شُتِّت منهم.

                 ▪ *خلاصہ کلام*
حضرت ایوب علیہ السلام ایک بڑے امتحان میں تقریبا اٹھارہ(١٨) سال مبتلا رہے اور یہ امتحان جان، مال، اولاد سب پر آیا تھا لیکن اس دوران ان کے جسم میں کیڑے پڑ گئے یا کچھ ایسا ہوا کہ لوگ ایوب علیہ السلام سے نفرت کرنے لگے یہ بات سند کے لحاظ سے بھی درست نہیں اور نہ ہی شان نبوت کی وجہ سے عقلا درست ہے، لہذا اس طرح کے واقعات بیان کرنے سے گریز کرنا چاہیئے.

    《واللہ اعلم بالصواب》
《کتبه: عبدالباقی اخونزادہ》
٢٩ نومبر ٢٠١٨
کراچی

Link to comment
Share on other sites

Create an account or sign in to comment

You need to be a member in order to leave a comment

Create an account

Sign up for a new account in our community. It's easy!

Register a new account

Sign in

Already have an account? Sign in here.

Sign In Now
×
×
  • Create New...