Jump to content
IslamicTeachings.org

دعا مانگنے کا ضابطہ اور اس کے آداب


Bint e Aisha

Recommended Posts

 
دعا مانگنے کا ضابطہ اور اس کے آداب

 

 

*ارشاد ربانی ہے :*

 

 

[”ونادٰی نوح ربہ فقال رب ان ابنی من اہلی وان وعدک الحق وانت احکم الحاکمین‘ قال یا نوح انہ لیس من اہلک‘ انہ عمل غیر صالح‘ فلاتسئلن مالیس لک بہ علم‘ انی اعظک ان تکون من الجاہلین“] 

 

 

*ترجمہ :*

 

 

”اور نوح علیہ السلام نے اپنے رب کو پکارا اور عرض کیا کہ اے میرے رب! میرا بیٹا میرے گھروالوں میں سے ہے اور آپ کا وعدہ بالکل سچا ہے، اور تو سب سے بڑا حاکم ہے- اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : اے نوح! یہ شخص تمہارے گھروالوں میں نہیں، یہ تباہ کار ہے، سو مجھ سے ایسی چیز کی درخواست مت کرو جس کی تم کو خبر نہیں۔ میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ تم نادانوں میں داخل نہ ہوجاؤ“۔

 

 

آیات مذکورہ بالا سے فقہاء نے یہ مسئلہ اخذ کیا ہے کہ دعا کے لئے ضروری ہے کہ دعا کرنے والا پہلے یہ معلوم کرے کہ جس کام کی دعا کررہا ہے وہ جائز و حلال ہے یا نہیں۔ مشتبہ حالت میں دعا کرنے سے منع فرمایا گیا ہے-

 

 

*قاضی بیضاوی لکھتے ہیں :*

 

 

[”فلاتسئلن مالیس لک بہ علم“ ای مالم تعلم اصواب ہو ام لیس کذلک“] 

 

 

*ترجمہ :*

 

 

”سو مجھ سے ایسی چیز کی درخواست مت کرو جس کی تم کو خبر نہیں یعنی جس کے بارے میں تجھے یہ علم نہ ہو کہ یہ حق و جائز ہے یا نہیں“۔

 

 

مولانا محمد اشرف علی لکھتے ہیں :

 

 

[”وعلم بہ حال ادعیة مشایخ زماننا یدعون لکل ما یطلب عنہم الدعاء لہ حلالا کان او حراما من الخصومات او المناصب وحال دعاء بعض المشتغلین بالطریق ببعض الاحوال التی لاعلم لہم بنفعہا وضرہا“۔] 

 

 

*ترجمہ :*

 

 

”اور اس سے ہمارے زمانہ کے مشائخ کی دعاؤں کا حال معلوم ہوتا ہے کہ ان سے دعووں و جھگڑوں اور عہدوں میں سے جس امر کے لئے دعا کی درخواست کی جاوے وہ اس کے لئے دعا کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں، چاہے وہ جائز ہو یا ناجائز، اسی طرح بعض سالکین بعض احوال کی دعا کرتے ہیں، حالانکہ ان کا نفع و نقصان کچھ معلوم نہیں“۔

 

 

*مولانا مفتی محمد شفیع لکھتے ہیں :*

 

 

”اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آج کل کے مشائخ میں جو یہ عام رواج ہوگیا ہے کہ جو شخص کسی دعا کے لئے آیا، اس کے واسطے ہاتھ اٹھا دیئے اور دعا کر دی، حالانکہ اکثر ان کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس مقدمے کے لئے دعا کرا رہا ہے اس میں یہ خود حق پر ہے یا ظالم ہے یا کسی ایسے مقصد کے لئے دعا کرا رہا ہے جو اس کے لئے حلال نہیں، کوئی ایسی ملازمت اور منصب ہے جس میں یہ حرام میں مبتلا ہوگا یا کسی کی حق تلفی کرکے اپنے مقصد میں کامیاب ہوسکے گا، ایسی دعائیں حالت معلوم ہونے کی صورت میں تو حرام و ناجائز ہی ہیں، اگر اشتباہ کی حالت میں بھی ہو تو حقیقت حال اور معاملہ جائز ہونے کا علم حاصل کئے بغیر دعا کے لئے اقدام کرنا بھی مناسب نہیں“۔ 

 

 

 
:علامہ قرطبی دعا کے آداب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں 

 

 

[”ومن شرط المدعو فیہ ان یکون من الامور الجائزة الطلب والفعل شرعاً“۔] 

 

 

*ترجمہ :*

 

 

”اور یہ بھی ضروری ہے کہ دعا ان ہی چیزوں کی مانگی جائے جو عادتاً مانگی جاتی ہوں اور شرعاً مباح ہوں“۔

 

 

*اسی طرح نبی کریم ﷺ سے قبولیت دعا کے بارے میں یہ ارشاد منقول ہے :

 

 

* [”ما من احد یدعوا بدعاء الا آتاہ اللہ ما سال او کف عنہ من السوء مثلہ مالم یدع باثم او قطعیة رحم-"] 

 

 

*ترجمہ :*

 

 

”جو بھی شخص دعا مانگتا ہے تو اللہ تعالیٰ یا تو اسے وہ چیز عطا فرما دیتا ہے جو وہ مانگتا ہے یا اس کے عوض اس سے برائی کو روک دیتا ہے‘ جب تک وہ گناہ کی کوئی چیز یا ناتہ توڑنے کی دعا نہیں مانگتا“۔

 

 

*گناہ کی کوئی چیز مانگنے کا مطلب ملا علی القاری بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :*

 

 

[”مثل ان یقول اللہم قدرنی علی قتل فلان وہو مسلم او اللہم ارزقنی الخمر او اللہم اغفر لفلان وہو مات کافراً یقینا او خلد فلاناً المؤمن فی النار“۔] 

 

 

*ترجمہ :*

 

 

”مثلاً کوئی شخص یوں دعا مانگنے لگے : اے اللہ! مجھے فلاں شخص کو جو مسلمان ہے، قتل کرنے کی طاقت عطا فرما؛ یا یوں کہے: اے اللہ! مجھے شراب عطا کر؛ یا یوں کہے : اے اللہ! فلاں شخص کو بخش دے، حالانکہ اس کی موت یقینی طور پر کفر پر واقع ہوئی ہو؛ یا یوں کہے : اے اللہ! فلاں مومن کو ہمیشہ عذاب جہنم میں مبتلا رکھ“۔

 

 

خلاصہ یہ کہ ایک مسلمان کو اپنے یا دوسروں کے حق میں دعا مانگنے سے قبل یہ دیکھنا چاہئے کہ جن امور کے لئے وہ دعا مانگ رہا ہے وہ جائز بھی ہیں یا نہیں۔

 

 

حضرت نوح علیہ السلام سے قرآن حکیم کی زبانی بعض ایسے دعائیہ کلمات بھی منقول ہیں، جو جائز ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت ہی پسندیدہ دعائیہ کلمات ہیں، 

 

 

*ارشاد خداوندی ہے :*

 

 

[”رب اغفرلی ولوالدی ولمن دخل بیتی مؤمناً وللمؤمنین والمؤمنات“] 

 

 

*ترجمہ :*

 

 

”اے میرے پروردگار! تو مجھے اور میرے ماں باپ اور جو بھی ایماندار ہوکر میرے گھر میں آئے اور تمام مومن مردوں اور کل ایماندار عورتوں کو بخش دیں“۔

 

 

آیت مذکورہ میں حضرت نوح علیہ السلام اپنے لئے بخشش کی طلب کرتے ہوئے عرض کرتے ہیں کہ اے میرے رب! مجھے اور میرے والدین کو بخش اور ہر مومن مرد و عورت کو بخش جو میرے گھر میں آجائے، گھر سے مراد مسجد بھی لی گئی ہے، لیکن عام مراد یہی ہے پھر وہ اپنی دعا کو عام کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تمام ایماندار مردوں اور عورتوں کو بھی بخش خواہ زندہ ہوں، خواہ مردہ۔

 

 

*حافظ ابن کثیر اس مقام پر لکھتے ہیں :*

 

 

[’ولہذا یستحب ہذا الدعاء اقتداء بنوح علیہ السلام“۔] 

 

 

*ترجمہ :*

 

 

”اسی لئے مستحب ہے کہ ہر شخص اپنی دعا میں دوسرے مومنوں کو بھی شامل رکھے تاکہ حضرت نوح علیہ السلام کی اقتداء ہو“۔

 

 

*حافظ عبد الرحمن بن ابی بکر السیوطی لکھتے ہیں :*

 

 

[”فیہ ادب عظیم من آداب الدعاء وہو جمع الوالدین والمؤمنین فی الدعاء والابتداء بنفسہ“۔] 

 

 

*ترجمہ :*

 

 

”آیت مذکورہ میں آداب دعا سے متعلق ایک عظیم  ادب کا بیان ہوا ہے اور وہ یہ کہ دعا میں ماں باپ اور دوسرے مسلمانوں کو بھی شریک کرلینا چاہئے اور شروع اپنے نفس سے ہو“۔

 

 

حضرت مفتی حذیفہ صاحب پالنپوری

 

Link to comment
Share on other sites

Create an account or sign in to comment

You need to be a member in order to leave a comment

Create an account

Sign up for a new account in our community. It's easy!

Register a new account

Sign in

Already have an account? Sign in here.

Sign In Now
×
×
  • Create New...